بلوچستان اسمبلی ، آسیہ مسیح کی رہائی کے فیصلے پر نظرثانی سے متعلق ، قرارداد منظور

  • November 1, 2018, 11:03 pm
  • National News
  • 64 Views

کوئٹہ(ویب ڈیسک ) بلوچستان اسمبلی نے آسیہ مسیح کے کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ دوبارہ کیس کا ازسر نو جائزہ لے جہید علماء کرام مشائخ پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے اور اس فیصلہ میں قوم کو اعتماد میں لیا جائے کی مشترکہ قرار داد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی جبکہ این ایف سی ایوارڈ میں کٹوتی سے متعلق تحریک التواء کو بھی متفقہ طور پر منظور کرلی گئی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا اجلاس میں رکن بلوچستان اسمبلی اختر حسین لانگو نے کہا کہ کوئٹہ کے واحد اسپورٹس کمپلیکس ایوب اسٹیڈیم میں مختلف محکموں کی جانب سے غیر قانونی طور پر قبضہ کئے جارہے ہیں 2016 ء میں اے ٹی ایف نے قبضہ کرنے کی کوشش کی تو اس سلسلہ میں ہم نے عدالت سے رجوع کیا اور عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ اسپورٹس کمپلیکس پر کسی بھی محکمہ کو بھی قبضہ کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ محکمہ اسپورٹس کے علاوہ کسی کو بھی زمین نہیں دی جائے حکومت محکمہ ریونیو کو پابند کرے کہ وہ اس متعلق رپورٹ فراہم کرے کہ کن کن محکموں کو یہاں اراضی دی گئی ہے ۔ رکن بلوچستان اسمبلی نصراللہ زیرے نے کہا کہ ایوب اسٹیڈیم کوئٹہ واحد اسپورٹس کمپلیکس جہاں ہمارے بچے کھیلتے ہیں مگر افسوس کہ دوسرے محکموں کو وہاں دفاتر الاٹ کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے بچوں کو کھیلنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے صوبائی وزیر مواصلاحات طارق مگسی نے اراکین اسمبلی کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان سے اس معاملہ پر بات کی جائے گی اور کسی بھی محکمہ کو اجازت نہیں دینگے کہ وہ اسپورٹس کمپلیکس میں اپنے دفاتر کھولے رکن صوبائی اسمبلی سید فضل آغا نے کہا ہے موجودہ حکومت معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی سوالات کے جوابات بھی نہیں دیاجارہے اگر ہم سوالات اور جوابات کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے مسئلہ آگے نہیں جائیگا ۔ جس پر صوبائی وزیر طارق مگسی نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں تمام محکموں سے درست جوابات آئیں گے چیف آف سراوان رکن بلوچستان اسمبلی نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ ہم بلوچستان سے منتخب ہوکر آئے ہیں اور تمام منتخب نمائندوں کو اپنے لوگوں کے مسائل کا احساس ہے ، حکومتی وزراء کو پابند کیاجائے کہ وہ کورم کومدنظر رکھتے ہوئے اسمبلی اجلاس میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں انہوں نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ اسپیکر چیمبر میں اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے حوالے سے اجلاس طلب کرکے کمیٹیاں تشکیل دی جائیں قائد ایوان ایگریکلچر مارکیٹ کمیٹی تشکیل دے ۔ ڈ پٹی اسپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل نے کہا کہ جب تک اپوزیشن لیڈر کی نامزدگی نہیں ہوتی تب تک قائمہ کمیٹیاں نہیں بن سکتیں۔بی این پی کی خاتون رکن اسمبلی شکیلہ نوید دہوار نے چیف آف سراوان سمیت نو منتخب اراکین اسمبلی کو کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے ایوان کی توجہ بلوچی اکیڈیمی کے گرانٹ میں کمی سے متعلق مبذول کراتے ہوئے کہاکہ 1958میں قائم ہونیوالے بلوچی اکیڈیمی کا سالانہ گرانٹ ایک کروڑ روپے ہیں جس سے اکیڈیمی شعراء ادیب و دانشوروں کو معاونت فراہم کرتی ہے اکیڈیمی میں طلباء و طالبات کو ریسرچ سمیت مختلف امتحانات میں تیاری سے متعلق کتب بھی فراہم کرتے ہیں اور پی سی ایس سمیت دیگر امتحانات میں اسی اکیڈیمی سے 70فیصد مواد دیا جاتا ہے تاہم افسوس کہ اپنے مقامی زبان اور ثقافت کو فروغ دینے کے لئے حکومت اقدامات اٹھانے کی بجائے بلوچی اکیڈیمی کے گرانٹ میں کمی کرکے پنجگور میں واقعہ ایک نام نہاد اکیڈیمی کو نواز رہی ہے جس کا ایوان نوٹس لیں ۔ رکن بلوچستان اسمبلی نصرا للہ زیرے نے ایوان میں توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے کہاکہ 25 ستمبر کو سبزی منڈی ہزار گنجی میں سبزی فروشوں ، ماشہ خوروں ، زمینداروں اور کمیشن ایجنٹ کیلئے مختص گراؤنڈ میں قائم چھاپڑیوں کو بلڈوز کرکے آگ لگائی گئی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں غریب لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں اور محکمہ ذراعت اور مارکیٹ کمیٹی نے اس سلسلہ میں کیا اقدامات اٹھائے ہیں ۔ اورمحکمہ زراعت کی جانب سے درست جواب نہیں دیا گیا آکشن گراؤنڈ پر سب کا حق بنتا ہے مگر بدقسمتی سے غیر قانونی طور پر لیز دیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ آگے من پسند افراد کے حوالے کئے گئے ہیں ۔ زمیندار جب صبح مال لاتے ہیں تو ماشہ خور آگئے سپلائی کردیتے ہیں اگر ماشہ خوروں کو بے روزگار کیا جائے گا قوم پہلے ہی معاشی حالات سے دوچار ہے اور صوبے کی مالی حالت درست نہیں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے زراعت کو شعبہ بھی تباہی کی جانب چلی گئی ہے وزیراعلیٰ بلوچستان نے یقین دہانی کرائی تھی کہ مسئلہ کو حل کیاجائے گا ۔ صوبائی وزیر داخلہ میر سلیم کھوسہ نے کہا کہ اس متعلق کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جلد ازالہ کیاجائے گا۔جمعیت علماء اسلام کے رکن صوبائی اسمبلی ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس وقت ملک میں جو ہنگائی صورتحال بنی ہوئی ہے اس صورتحال کو سنجیدگی سے لیا جائے مسئلہ سپریم کورٹ کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ اسلامی اقدار اور روایات کا ہے جس نظریہ سے پاکستان بنا ہے اس نظریہ کے تحت ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ توہین رسالت پر ہم کسی بھی صورت سودا بازی نہیں کرینگے اور حضور پاک ﷺ پر مسلمان سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں دھمکیوں سے ہمیں نہ ڈرایا جائے اگر ہم اس احساس مسئلہ پر مسئلہ پر احتجاج نہ کریں تو پھر افسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ کسی بھی فرقہ یا طبقہ کی دال آزاری نہیں چاہتے اس وقت بیرونی آقاؤں کی وجہ سے موجودہ صورتحال میں احتجاج پر قابو پانے کیلئے دھمکیاں دی جارہی ہیں اسلامی اقدار پر کوئی سودا بازی نہیں کرینگے چاہیے جتنی پابندیاں عائد کی جائیں ہم اس ذہنیت کے خلاف ہیں جو ملک میں حالات کو خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں بلوچستان اسمبلی سے ایک پیغام دیاجائے کہ ہم کسی بھی صورت اسلامی اقدار اور روایات کے دشمن کو معاف نہیں کرینگے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے عدالت کا فیصلہ اپنی جگہ پر مگر جو سازشیں ملک سے باہر بنی ہوئی ہے اور سوشل میڈیا پر وزیراعظم کے ساتھ ان لوگوں کی ملاقات کی تصویریں بھی وائرل ہوئی ہیں جو ان توہین رسالت میں ملوث ہیں ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جہاں پر لوگ قرآن وسنت پر زندگی گزارہیں ان کو یہ حق دیاجائے مگر بدقسمتی سے یہاں پر اسلامی اقدار پر حملے ہورہے ہیں رکن صوبائی اسمبلی اصغر علی ترین نے کہا کہ ہم عدالت کا احترام کرتے ہیں مگر اس وقت آسیہ مسیح کی رہائی کے حوالے سے ملک بھر میں بیس کروڑ عوام سراپا احتجاج ہیں سپریم کورٹ کو اس فیصلہ پر نظر ثانی کرنی چاہیے بی این پی کے رکن اسمبلی ثناء بلوچ نے کہا کہ حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کوئی بھی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا اور نبیﷺ نے دنیا میں امن کا درس دیا ہے انصاف کے تقاضوں کو پوار کیا جائے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو مکمل فیصلہ تسلیم نہیں کرتے سپریم کورٹ دوبارہ کیس کا ازسر نو جائزہ لے جہید علماء کرام مشائخ پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے اور اس فیصلہ میں قوم کو اعتماد میں لیا جائے اور لوگوں کے جذبات کو کم کرنے کا یہی طریقہ ہے رکن صوبائی اسمبلی سید فضل آغا نے کہا کہ اسلامی تعلیمات پر عملدرآمد کیا جائے اور تمام مذاہب کا احترام کرنے کیلئے اصولوں پر پابندی کرنی چائے بعدازاں ایوان میں جمعیت علماء اسلام ملک سکندر ایڈووکیٹ نے مشترکہ قرار دادپیش کی اور قرار داد کو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا ۔ اجلاس میں پشتونخوامیپ کے رکن نصراللہ خان زیرے نے گزشتہ اجلاس میں اپنی باضابطہ شدہ تحریک التواء کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 18 اکتوبر کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں این ایف سی کے تحت صوبوں کے فنڈز پر کٹ لگانے کی بات کی گئی اس بات کا اظہار ہم پہلے بھی کرتے آئے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں کو اقتدار میں اس لیے لایا گیا کہ وہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم اور اٹھارویں ترمیم کو واپس لیں گے جو اٹھارہ اکتوبرکے اجلاس میں ثابت ہوگی ۔