بلوچستان اسمبلی کا اجلاس نصف گھنٹے کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل کی زیر صدارت

  • November 5, 2018, 11:13 pm
  • National News
  • 140 Views

کوئٹہ (ویب ڈیسک )بلوچستان اسمبلی کا اجلاس نصف گھنٹے کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے سید فضل آغا نے وقفہ سوالات کے آغاز پر سپیکر کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ انہوں نے ڈیڑھ ماہ قبل تیرہ سوالات اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائے جن میں سے اب تک صرف ایک سوال کا جواب آیا ہے جو افسوسناک ہے اور اسمبلی سے مذاق کے مترادف ہے وزراء اور سپیکر سیکرٹریٹ سے متعلقہ محکموں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ سوالات کے جوابات بروقت دیں تاکہ اداروں کی کارکردگی بہتر ہو اسمبلیوں میں وقفہ سوالات سب سے اہم ہوتا ہے مگر اسے بلوچستان اسمبلی میں نظر انداز کیا جارہا ہے ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان اسمبلی ایک مثالی اسمبلی بنے مگر محسوس ہورہا ہے کہ بیورو کریسی تعاون کے لئے تیار نہیں ڈپٹی سپیکر نے تمام متعلقہ محکموں کو ہدایت کی کہ وہ سوالات کے بروقت جوابات کو یقینی بنائیں۔اجلاس میں صوبائی وزیر اطلاعات میر ظہور بلیدی نے وزیر پی اینڈ ڈی کی عدم موجودگی میں نصراللہ زیرے کے برج عزیز خان ڈیم کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ارب روپے کا منصوبہ ہے جس میں سے نصف وفاق اور نصف فنڈز صوبے نے دینے ہیں اس سال بلوچستان حکومت نے فزیبلٹی کی مد میں پیسے جاری کردیئے ہیں جمعیت علماء اسلام کے سید فضل آغا نے کہا کہ یہ بیس سال پرانا منصوبہ ہے بتایا جائے کہ فزیبلٹی کب وفاق کو بھیجنے کا ارادہ ہے اور اس پر اب تک کتنی پیشرفت ہوئی ہے کیونکہ پانی کی قلت وفاق کا نہیں بلکہ صوبے کا مسئلہ ہے اس پر ہم نے خود دلچسپی لینی ہے صرف فزیبلٹی کی تیاری سے ڈیم نہیں بنیں گے صوبائی حکومت بتائے کہ اس منصوبے پر کب تک کام کا آغاز ہوگا۔صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے کہا کہ یقینی طور پر کوئٹہ میں پانی کی قلت اہم مسئلہ ہے ڈیمز کی تعمیر ناگزیر ہے وفاق نے وفاقی پی ایس ڈی پی میں کچھ منصوبوں پر کٹ لگایا ہم نے وفاق سے کہا کہ ہمارے منصوبوں پر کٹ نہ لگایا جائے جس پر وفاق نے اتفاق کیا ہے ڈیم کی تعمیر پر ہمارا اجلاس ہوچکا ہے جلد وفاق میں بھی اس سلسلے میں اجلاس ہوگا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے عبدالرحیم مینگل نے کہا کہ برج عزیزخان ڈیم کی تعمیر سے نوشکی میں لاکھوں ایکڑ اراضی بنجر ہوجائے گی ہم اس کی حمایت نہیں کرتے ،پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرے نے کہا کہ وادی کوئٹہ میں پانی کی بڑی قلت ہے معروف ماہر ڈاکٹر دین محمد نے ایک ریسرچ کی ہے کہ اگر چند سالوں میں چھوٹے ڈیمز نہ بنے تو کوئٹہ کی زمین جو سالانہ آٹھ سے دس سینٹی میٹر دھنس رہی ہے یہ صورتحال مزید خراب ہوجائے گی زیر زمین پانی کی سطح کو بہتر بنا کرہی اس مسئلے پرقابو پایا جاسکتا ہے۔ سابق دور حکومت میں کوئٹہ کے گردونواح میں پہاڑوں پر دو سو ڈیمز کی تعمیر کے لئے سروے کرکے منصوبہ وفاق کو بھیجا گیا اگر ان ڈیمز کی تعمیر کو یقینی نہ بنایا گیا تو کوئٹہ کے عوام نقل مکانی پر مجبور ہوجائیں گے یہی صورتحال صوبے کی ہے جہاں سالانہ14سو ملین ایکڑ فٹ بارانی پانی ڈیمز نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہوجاتا ہے جس سے اب خشک سالی کی صورتحال مزید سنگین ہوگئی ہے ،انہوں نے کہا کہ برج عزیز خان ڈیم کی تعمیر سے نوشکی کاپانی نہیں رکے گا بلکہ سپیل وے کا پانی وہاں بھی جائے گا ،بی این پی کے رحیم مینگل نے کہا کہ سپل وے کا پانی نوشکی نہیں بلکہ افغانستان جائے گا ماضی میں بھی نوشکی کے عوام اس منصوبے کی مخالفت کرچکے ہیں۔وقفہ سوالات میں پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے سپیرہ راغہ شاہراہ کی تعمیر کے حوالے سے اپنے متعلقہ سوال پر کہا کہ یہ شاہراہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے مگر یہ بات افسوسناک ہے کہ جس شاہراہ کی تعمیر پر لاگت 1604ملین ہے اس کے لئے صرف 2سو ملین مختص کئے گئے ہیں شاہراہ کی تعمیر سے لورالائی کا سفر دو گھنٹے کم ہوجائے گا۔ جمعیت علماء اسلام کے سید فضل آغا نے کہا کہ سوال کے جواب میں اعداوشمار بھی پریشان کن ہیں اس کی وضاحت کی جائے کہ جب سڑک پر پانچ سال سے کام ہی نہیں ہورہا تو پھر427ملین روپے کس مد میں جاری کئے گئے۔ صوبائی وزیر اطلاعات ظہور بلیدی نے کہا کہ یقینی طو رپر یہ سڑک انتہائی اہمیت کی حامل ہے صوبائی حکومت پی ایس ڈی پی پر نظر ثانی کررہی ہے مذکورہ سڑک کے منصوبے کو پی ایس ڈی پی میں ترجیح دیں گے تاہم انہو ں نے 427ملین روپے کی تفصیلات سے متعلق آئندہ اجلاس میں آگاہ کرنے کی یقین دہانی کرائی جس پر ڈپٹی سپیکر نے سوال آئندہ اجلاس تک ملتوی کرنے کی رولنگ دی۔اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے کہا وزیر محکمہ پی ڈی ایم اے سے استفسار کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ بلوچستان بالخصوص خاران ، نوشکی اور دالبندین کے عوام کا ذریعہ معاش زراعت اور مالداری سے وابستہ ہے جو خشک سالی کے باعث مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو کیا حکومت ان اضلاع کو قحط زدہ قرار دیتے ہوئے خصوصی پیکج دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے90فیصد اضلاع شدید خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں جہاں لوگ بھوک اور افلاس سے بلبلارہے ہیں وہاں متعلقہ محکمہ ٹینٹ بھیج رہی ہے آیا بھوک سے بلبلانے والے لوگ ٹینٹ کھائیں گے۔ دنیا آج قدرتی آفات کو روکنے پر توجہ دے رہی ہے اور جدید ٹیکنالوجی سے زیادہ سے زیادہ استفادہ حاصل کرنے کے لئے منصوبہ بندی کررہی ہے قحط سالی کے اثرات صوبے کی زراعت معیشت ،لائیو سٹاک سمیت دیگر شعبوں پر پڑ رہے ہیں بلوچستان کے اکثر اضلاع میں لوگ شمسی توانائی سے پانی حاصل کررہے ہیں جس کی وجہ سے متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی نہیں ہورہی۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت صومالیہ ، یوکرین سے بد ترین خشک سالی ہے جس کی وجہ سے بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے اور صوبے کے90فیصد لوگ غذائی قلت کا شکار ہوچکے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم نے ایوان میں این ایف سی اور پی ایس ڈی پی کے حوالے سے تجاویز پیش کیں تاکہ صوبے سے غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ممکن ہوتاہم ایک سالہ پی ایس ڈی پی سے اپنی جان نہ چھڑاپانے والی حکومت کی عدم سنجیدگی کے باعث اہم فائلیں سرکاری افسران کی میزوں سے آگے نہیں بڑھ سکی ہیں۔انہوں نے تجویز دی کہ توجہ دلاؤ نوٹس کو مشترکہ قرار داد میں تبدیل کرکے وفاقی حکومت سے بلوچستان کے تمام اضلاع کو قحط اور آفت زدہ قرار دے کر خصوصی پیکج کا مطالبہ کیا جائے۔وفاقی حکومت بلوچستان کے زمینداروں پر واجب الادا زرعی قرضے اور بجلی کی مد میں بقایہ جات ختم کرکے صوبے میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم کرے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے اکثر اضلاع کو صرف چار سے چھ گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے جس سے متاثرہ اضلاع میں صورتحال مزید سنگین ہوتی جارہی ہے بلوچستان کو سپیشل ایگری کلچر پیکج کے تحت تمام اضلاع کو پانچ سو ٹریکٹر ، بیج ، کھاد اور زمینداروں کو اپنی زمینیں آباد کرنے کے لئے بلا سود قرضہ فراہم کیا جائے انہوں نے کہا کہ محکمہ لائیوسٹاک کو گزشتہ بیس سالوں سے قحط لگاہوا ہے تاہم ہماری موجودہ حکومت سے توقع ہے کہ وہ محکمے کے استعداد کار میں اضافہ کرتے ہوئے مویشیوں کے لئے خوراک اور ادویات مہیا کرے گی پی ایچ ای تمام اضلاع میں واٹر سپلائی کنکشن لگائے جس کے لئے وفاقی حکومت فنڈز مہیا کرے۔ اپوزیشن کی قرار داد کو حکومت ایوان سے پاس کرائے تاکہ اسلام آباد میں ہماری آواز موثر طریقے سے بلند ہوسکے۔انہوں نے کہا کہ ایک جانب حکومت تن تنہا اسلام آباد ، چین کے دورے کررہی ہے اور معاون خصوصی کے تقرریاں کررہی ہے دوسری جانب خزانے میں صرف 88کروڑ روپے رہ جانے کا دعویٰ بھی کیا جارہا ہے۔ ایوان میں رکن اسمبلی میر جان محمد جمالی نے کہا کہ بلوچستان نے کالا باغ ڈیم کے خلاف قرار داد منظؤر کرکے سندھ کا ساتھ دیا مگر سندھ حکومت ہمیں اپنے حصے کا پانی تک فراہم نہیں کررہی ہے دریائے سندھ سے کھیرتر کینال کے ذریعے صوبے کے گرین بیلٹ کو مہیا کیا جانے والا پانی بند کردیاگیا ہے جس سے لوگ وہاں سے نقل مکانی کرکے دیگر علاقوں کو منتقل ہورہے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم نے فواد چوہدری کو بہت سن لیا ہے اب انہیں ہم کو سننا چاہئے انہوں نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو صوبے میں خشک سالی سے متعلق ایک نکاتی ایجنڈا وضع کرتے ہوئے وفاق میں اپنی بات منوانی چاہئے۔انہو ں نے کہا کہ صوبے میں سی پیک کے تحت شاہراہیں تعمیر ہورہی ہیں مگر ان شاہراہوں پر خشک سالی کی وجہ سے نہ کوئی اونٹ چلے گا نہ بندے ہوں گے انہوں نے جہ دلاؤ نوٹس کو قرار داد کی شکل دے کر اس حوالے سے سپیشل کمیٹی قائم کرنے کی تجویز دی بلوچستان نیشنل پارٹی کے نصیر شاہوانی نے کہا کہ بلوچستان کے تمام اضلاع خشک سالی سے متاثر ہیں 1957ء سے 2002ء تک خشک سالی سے بلوچستان کے 45لاکھ درخت اور 5147زرعی ٹیوب،3245چشمے وکاریزات خشک ہوچکے ہیں لاکھوں مال مویشی قحط سالی کی نذر ہوگئے قحط سالی سے صوبے کو6سو ارب روپے کا نقصان ہواگزشتہ برس 4لاکھ ٹن پیاز پیدا کرنے والے صوبے میں اس سال بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے پیاز کی پیداوارصرف ایک سے ڈیڑھ لاکھ ٹن ہوئی ہے۔ پانی کی قلت کا مسئلہ شدید ہورہا ہے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی60فیصد سے زائد آبادی ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پر ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو آفت زدہ قرار دیا جائے۔جے یوآئی کے سید فضل آغا نے کہا کہ یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے اس توجہ دلاؤ نوٹس کو قرار داد میں تبدیل کرکے اس کی منظوری لی جائے اور وفاقی حکومت سے بلوچستان کو آفت زدہ قرار دینے اور صوبے کے لئے خصوصی پیکج کا مطالبہ کیا جائے۔جے یوآئی کے میرزابدریکی نے کہا کہ 2013ء میں ماشکیل میں آنے والے زلزلے سے 15افراد جاں بحق 4ہزار سے زائد گھروں کو نقصا ن پہنچا مگر حکومت کی جانب سے متاثر لوگوں کو اب تک مالی امداد فراہم نہیں کی گئی حکومت کو اس مسئلے کا نوٹس لینا چاہئے۔ اپوزیشن رکن ثناء4 بلوچ نے کہا کہ حکومت کی جانب سے توجہ دلاؤ نوٹس اچھا اقدام ہے ہم سب کومل کر صوبے کو مشکل حالات سے نکالنے کے لئے اپنا کردار اد اکرنا ہوگانیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور یو این کی رپورٹ آئی ہے کہ بلوچستان میں آنے والے دنوں میں خشک سالی کی صورتحال مزید گھمبیر ہوگی اور خطرناک صورتحال پیدا ہوگی اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس کے لئے منظم طریقے سے پالیسی بنائیں رکن اسمبلی جان جمالی نے کہا کہ ہمسایہ صوبہ بلوچستان کا پانی نہیں دے رہا کچھی کینال کو مکمل کیا جائے اور پٹ فیڈر کو بحال کرکے بلوچستا ن کو اس کے حصے کا پورا پانی دیا جائے ریکوزیشن جمع کرکے آئندہ48گھنٹوں میں دوبارہ اجلاس طلب کریں صوبائی وزیر پی ڈی ایم اے میر سلیم کھوسہ نے ایوان کوبتایا کہ قرار داد میں اتنے مطالبات نہ کریں کہ کل ہم ان سے بھی محروم رہیں۔بعدازاں ایوان کی رائے سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے مشترکہ قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں کئی سالوں سے جاری خشک سالی کے باعث بلوچستان کو آفت زدہ قرا ردے کر صوبے کی تباہ حال معیشت وغربت کی پیش نظر صوبے کے تمام زمینداروں کے زرعی قرضے معاف اوربجلی کے واجبات ختم کرکے صوبے بھر میں بجلی کی اٹھارہ گھنٹے فراہمی ممکن بنائی جائے ، خصوصی پیکج اور بلاسود قرضوں کی فراہمی ممکن بنائی جائے اور اس سلسلے میں بین الاقوامی اداروں سے امداد طلب کی جائے علاوہ ازیں ہرضلع میں قلت آب اور خشک سالی کے شکار علاقوں میں پانی کی فراہمی کے لئے تین ہزار سولر ٹیوب فراہم کئے جائیں اور مزید ڈیموں کی تعمیر کے لئے بھی صوبے کو فنڈز دیئے جائیں نیز خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں مال مویشیوں کے سینٹرز کو فعال کرکے مویشیوں کے لئے خوراک فراہم کی جائے خشک سالی سے متاثرین کے لئے بے نظر انکم سپورٹ پروگرام سے پندرہ ارب روپے تمام علاقوں کے لئے مختص کئے جائیں بلوچستان کے نہری علاقوں کو ارسا کے فارمولے کے تحت کاشتکاری کے لئے پانی کی فراہمی کو ہر صورت ممکن بنایا جائے اور عرصہ دراز سے جو حق تلفی کی گئی ہے اس کا بھی ازالہ کیا جائے۔ بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی۔اجلاس میں اپوزیشن ارکان ثناء4 بلوچ ، ملک نصیر شاہوانی ، اصغرترین نے زور دیا کہ بلوچستان خشک سالی سے متعلق منظور ہونے والی قرار داد پر ایوان کی کمیٹی بنائی جائے جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب سے پانچ پانچ ارکان شامل کئے جائیں کیونکہ اس قرار داد میں مختلف محکموں سے متعلق مطالبات شامل ہیں کمیٹی اسلام آباد میں چاہے ایک ماہ رہے تمام مذکورہ محکموں سے بات کی جائے اس کمیٹی کے قیام سے ارکان کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی صوبائی حکومت کمیٹی کو کوئی مراعات نہ دے صرف وفاقی اداروں سے ملاقات کے لئے سہولت فراہم کرے اگر کامیابی حاصل ہو یا ناکامی ہو تو دونوں میں حکومت اور اپوزیشن برابر شریک ہوں صوبائی وزراء4 اسد بلوچ ، ظہور بلیدی اورظہور کھوسہ نے کہا کہ قرار داد منظور ہوچکی ہے اس پر کمیٹی بنانے کی کوئی ضرورت نہیں اور وزیراعلیٰ بھی یہاں موجود نہیں ہیں وفاق میں اس قرار داد پر عملدرآمد کرانے کے لئے بھرپور اقدامات کریں گے قرار داد پر عملدرآمد کے سلسلے میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان کامشترکہ وفد اسلام آباد جائے گا اور بلوچستان کے موقف کومضبوط انداز سے پیش کریں گے۔اجلاس میں پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے پوائنٹ آف آرڈر پر صوبائی وزیر داخلہ سے استفسار کیا کہ ہزار گنجی کے معاملات پر انہوں نے کمیٹی بنانے کی یقین دہانی کرائی تھی اس سلسلے میں اب تک کیا پیشرفت ہوئی ہے جس پر وزیر داخلہ نے انہیں یقین دلایا کہ دو روز میں کمیٹی قائم کردی ائے گی۔اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے محکمہ ہائیر ایجوکیشن کے وزیر سے استفسار کیاکہ کیا یہ درست ہے کہ جامعہ بلوچستان سے منسلک 54کالجز طلباء کو بی ایڈ اور14کالجز ایم ایڈ کراتے ہیں کیا یہ بھی درست ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیٹی اسلام آباد کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کو جواز بنا کر سال2016کے سیشن بی ا یس کا امتحان لینے سے انکا کیا جبکہ جنوری2018ء میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور عدالت عالیہ کی جانب سے بی ایڈ اور ایم ایڈ کے امتحانات لینے کی اجازت دی گئی لیکن اس کے باوجود کنٹرولر جامعہ بلوچستان نے 9ہزار کے قریب طلباء کے امتحانات لینے سے انکار کیا اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو امتحانات نہ لینے کی وجوہات بتائی جائیں جس پر وزیر ہائیر اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن ظہور بلیدی نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ9ہزار طلباء سے امتحانات نہیں لئے گئے اور یونیورسٹی کے سینڈیکٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ کچھ پرائیویٹ کالجز میں جو طلباء و طالبات پڑھ رہے تھے ان کے داخلے نہیں بھیجے کیونکہ وہ مسلسل غیر حاضر رہے تھے مگر اس معاملے پر بلوچستان یونیورسٹی کے حکام کو کہہ کر مسئلے کا حل نکالیں نصراللہ زیرئے نے کہا کہ چھ ماہ سے معاملہ تاخیر کا شکار ہے اور اب تک 9ہزار طلباء سے امتحانات نہیں لئے گئے داخلہ فیس کی وجہ سے یونیورسٹی کو 10کروڑ روپے بھی جمع ہوئے ہیں یونیورسٹی حکام کو بلا کر اس معاملے کی وضاحت طلب کی جائے کیونکہ عدالت نے بھی اس معاملے پر واضح احکامات دیئے ہیں کہ جن طلباء وطالبات نے فیس جمع کرائی ہے ان سے امتحانات لئے جائیں مگر چھ مہینوں سے معاملہ تاخیر کا شکار ہے صوبائی وزیر خوراک اسد بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کی حکومتوں نے ایسا کوئی اقدام نہیں کیا کہ توہین عدالت ہو حکومت کو چاہئے کہ عدالتی فیصلے پر فوری عملدآمد کرے 9ہزار طلباء جو کہ بلوچستان کے ہیں جو بھی ان کے مستقبل سے کھیلنا چاہتا ہے یا تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں وہ بلوچستان دشمنی کررہے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ ظہور بلیدی نے کہا کہ یہ ہمارے بچے ہیں اور ان کا وقت ضائع نہیں کریں گے یونیورسٹی حکام کو بلا کر بات کریں گے اور مسئلہ حل کرائیں گے۔ سید فضل آغا اور احمد نواز بلوچ نے کہا کہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے جس سے نوجوانوں کا مستقبل جڑا ہوا ہے یونیورسٹی حکام کو بلا کر اس معاملے پر بات کی جائے۔ سپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی حکام کو سات نومبر گیارہ بجے اسمبلی سیکرٹریٹ میں طلب کرکے اس معاملے پر بات کریں گے۔اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے مشیر لائیوسٹاک مٹھاخان کاکڑ نے کہا کہ پچھلی حکومتوں نے لائیو سٹاک کے محکموں کو نظر انداز کیا جس کی وجہ سے لائیوسٹاک کا شعبہ ختم ہوتا جارہا ہے وفاقی حکومت ہمارے ساتھ مل کر لائیوسٹاک کے شعبے کی بہتری کے لئے اقدامات اٹھائے۔بی این پی کی شکیلہ نوید دہوار نے کہا کہ 2014ء میں لیکچرر ز کی تقرریوں کے لئے امتحانات ہوئے تمام شعبوں میں لیکچررز تعینات ہوچکے ہیں صرف براہوئی ڈیپارٹمنٹ کے کامیاب امیدوار اب تک تعیناتی سے محروم ہیں اس سلسلے میں وائس چانسلر سے بات کرکے اقدامات کئے جائیں۔اجلاس میں بلوچسان عوامی پارٹی بشریٰ رند نے تحریک پیش کی کہ بلوچستان صوبائی اسمبلی مجریہ1970کے قاعدہ نمبر180کے تحت بلوچستان اسمبلی میں خواتین کاکس کا قیام عمل میں لایا جائے جس کی ایوان نے منظوری دے دی۔ اجلاس میں بلوچستان عوامی پارٹی کی بشریٰ رند کو یونیورسٹی آف بلوچستان کے سینڈیکیٹ کے لئے رکن منتخب کرنے کی تحریک بھی منطوری دے گئی جس کے بعدڈپٹی سپیکر نے اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا۔