خشک سالی سے ایک لاکھ سے زائد خاندان اور ستر لاکھ مویشی متاثر ہوئے ،جام کمال

  • December 20, 2018, 12:26 am
  • National News
  • 77 Views

کوئٹہ (خ ن ) وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان سے وزیراعظم کے مشیر برائے انسٹیٹیوشنل ریفارمز ڈاکٹر عشرت حسین نے بدھ کے روز یہاں ملاقات کی۔ چیف سیکریٹری بلوچستان ڈاکٹر اختر نذیر بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ انسانی وسائل کی ترقی اور اداروں کے استعداد کا ر میں اضافہ کے ذریعہ گڈگورننس کے قیام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے اور ترقی کے اہداف کے حصول کے لئے اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین، انجینئرز، معیشت دانوں اور منصوبہ سازوں کی خدمات کا حصول بھی ناگزیر ہے، وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر عشرت حسین جو کہ چیئرمین پراونشل ڈیویلپمنٹ ورکنگ گروپ بھی ہیں نے بتایا کہ وزیراعظم کی ہدایت کی روشنی میں ملازمتوں میں توازن، مختلف شعبوں کے ماہرین کی تیاری اور ای گورنمنٹ کے قیام کے منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے، انہوں نے کہا کہ فنی تربیت کے حامل اہلکاروں کی مزید تربیت کی ضرورت ہے، جس پر کام کیا جارہا ہے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہوسکے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں غربت زیادہ ہے اور یہاں کے عوام اور دیگر صوبوں کے عوام کے معیار زندگی میں بہت زیادہ فرق ہے، بلوچستان کم آبادی کا حامل وسیع وعریض صوبہ ہے جہاں زیادہ ترقیاتی فنڈز کی ضرورت ہے، انہوں نے صوبے سے پسماندگی کے خاتمے اور گورننس کی بہتری کے لئے وزیراعلیٰ بلوچستان کی قیادت میں صوبائی حکومت کی کارکردگی کو سراہا، اس موقع پر بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبائی حکومت اختیارات کی مرکزیت کے خاتمے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور مالی اور ترقیاتی امور کا اختیار ڈویژنل اور ضلعی سطح پر منتقل کیا جارہا ہے تاکہ عوام کو درپیش بنیادی مسائل ان کی دہلیز پر حل کئے جاسکیں جبکہ اس تمام عمل کی نگرانی صوبائی سطح پر کی جائے گی، انہوں نے کہا کہ اس بات میں دور ائے نہیں ہوسکتیں کہ اگر مسائل کے حل کے لئے ٹھوس بنیادوں پر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو مشکلات میں اضافہ ہوگا، انہوں نے کہا کہ نگرانی کے نظام کی فعالی سے پچاس فیصد سے زائد بہتری آسکتی ہے جبکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے بھی افسروں اور اداروں کی کارکردگی بہتر ہورہی ہے، وزیراعلیٰ نے کہ ہم انتظامیہ کو بااختیار اور جوابدہ بنارہے ہیں، صوبے کے مسائل کے خاتمے کے لئے پختہ عزم او رمیکنزم کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم سروس ریفارم کے ذریعہ باصلاحیت افسران کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کریں گے، صوبائی حکومت نمائشی سیاست کی بجائے عملی اقدامات پر یقین رکھتی ہے، پی ایس ڈی پی کا ازسرنو جائزہ لے کر اسے مزید بہتر بنایا جارہا ہے، تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے کئی ایک اقدامات جاری ہیں، جن کے تحت ضلع کی سطح پر کم از کم ایک ماڈل ہائی اسکول قائم کیا جائے گا اس کے ساتھ شعبہ صحت میں بھی بہتری لائی جارہی ہے، انہوں نے کہا کہ ضلعی سطح پر پینے کے پانی کی فراہمی، صحت اور تعلیم کے شعبوں کی نگرانی کا فریضہ کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کو سونپا گیا ہے جس سے ان شعبوں میں بڑی حد تک بہتری آئی ہے، بہت سے بند اسکول فعال ہوئے ہیں اور ڈسٹرکٹ ہسپتالوں میں سرجری کا آغاز کیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت کوئٹہ کو درپیش مسائل کے فوری حل کو یقینی بنارہی ہے، دیہی علاقوں سے کوئٹہ آبادی کی منتقلی سے شہر کا بنیادی ڈھانچہ دباؤ کا شکار ہوا ہے اور مسائل بڑھے ہیں، اس صورتحال کی بہتری کے لئے جامع منصوبہ بندی کی جارہی ہے، اس موقع پر چیف سیکریٹری بلوچستان نے آگاہ کیا کہ صوبائی حکومت دفاتر میں سرکاری امور کی انجام دہی کو بہتر اور تیز رفتار بنانے کے لئے ای گورنمنٹ اور فائل ٹریکنگ نظام کے قیام کے منصوبے پر کام کررہی ہے جس کے لئے جلد حکومت پنجاب کے ساتھ معاہدہ کیا جائے گا، انہوں نے بتایا کہ محکمہ خزانہ اور محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی میں ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے جو دستیاب وسائل کے صحیح مصرف اور سروس ڈھانچہ کی بہتری کے لئے سفارشات تیار کریں گی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی زیرصدارت منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں صوبے میں خشک سالی کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے اس چیلنج سے موثر طور پر نمٹنے کے لئے اہم فیصلے کئے گئے اور ایک جامع حکمت عملی وضع کی گئی، صوبائی وزراء میر سلیم احمد کھوسہ، میر اسداللہ بلوچ، مٹھاخان کاکڑ، محمد خان لہڑی، اراکین صوبائی اسمبلی عبدالرشید بلوچ، محمد اکبر آسکانی، میر سکندر عمرانی،چیف سیکرٹری بلوچستان ڈاکٹر اختر نذیر، ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی وترقیات اور متعلقہ محکموں کے سیکریٹریوں نے اجلاس میں شرکت کی جبکہ ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے کی جانب سے اجلاس کو خشک سالی سے پیدا ہونے والی صورتحال اور امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے بریفنگ دی گئی، اجلاس کو بتایا گیا کہ گذشتہ کئی برسوں سے بارشیں نہ ہونے کے باعث صوبے کے بعض اضلاع میں خشک سالی کی صورتحال پیدا ہوئی ہے اور صوبے کے بیس اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کی جانب سے موصول ہونے والی سروے رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ سے زائد خاندان اور سترہ لاکھ سے زائد مال مویشی خشک سالی سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے خشک سالی سے متاثرہ 14اضلاع میں سروے کا آغاز کیا گیا ہے، اجلاس میں صوبے کے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ ریونیو اسٹاف کے ذریعہ خشک سالی کے حوالے سے اپنے اپنے ضلع کی تحصیلوں اور یونین کونسل کی سطح تک کی رپورٹ فوری طور پر حکومت کو ارسال کریں۔ اجلاس میں خشک سالی سے متاثرہ اضلاع میں ہیلتھ ایمرجنسی کے نفاذ کا فیصلہ کیا گیا جس کے تحت محکمہ صحت متاثرہ علاقوں میں فری میڈیکل کیمپ جبکہ محکمہ لائیوسٹاک حیوانات کے معائنہ اور علاج کے لئے ڈسپنسریاں قائم کرے گا، اجلاس میں صوبائی اور ضلعی سطح پر ایمرجنسی سیل کے قیام کا فیصلہ بھی کیا گیا جو خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں امداد وبحالی کی سرگرمیوں کو مربوط کرتے ہوئے ان کی نگرانی بھی کرے گا، اجلاس میں متعلقہ محکموں اور اداروں پر مشتمل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیٹی کے قیام کا فیصلہ بھی کیا، وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ کمیٹی خشک سالی کی موجودہ صورتحال اور بارشیں نہ ہونے کی صورت میںآئندہ کی متوقع صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے شارٹ ٹرم، میڈیم ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبہ بندی کرے، وزیراعلیٰ نے متاثرہ علاقوں کے مواصلاتی سروے کے لئے سپارکو کا تعاون حاصل کرنے کی ہدایت بھی کی جبکہ انہوں نے متاثرہ علاقوں اور صوبے کے ساحلی علاقوں میں پی ڈی ایم اے کے پاس دستیاب فلٹریشن پلانٹ نصب کرکے عوام کو پینے کے صاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ہدایت بھی ، اجلاس میں خشک سالی سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ابتدائی طور پر پچاس کروڑ روپے کے اجراء کی منظوری دیتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ حکومت متاثرین کی امداد کے لئے تمام وسائل بروئے لائے گی اور اس سلسلے میں وفاقی حکومت سے بھی رجوع کیا جائے گا، اجلا س میں 1122ریسکیو سروس کی فوری فعالی کے لئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کرنے اور اس سروس کو چلانے کے لئے ایک خودمختار اتھارٹی کے قیام کی ضرورت سے بھی اتفاق کیا گیا۔