بلوچستان اسمبلی ، ریونیواتھارٹی اور سیلز ٹیکس خدمات کا ترمیمی مسودہ قانون منظور

  • December 25, 2018, 12:29 am
  • National News
  • 79 Views

کوئٹہ (ویب ڈیسک)بلوچستان اسمبلی میں بلوچستان ریونیو اتھارٹی کے مسودہ قانون کی منظوری کے خلاف اپوزیشن کا شدید احتجاج ایوان سے واک آؤٹ کر کے چلے گئے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی سپیکر سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا ۔ اجلاس میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور رکن بلوچستان اسمبلی نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے ایوان کی توجہ بلوچستان اسمبلی کے باہر تعلیمی ایکٹ 2018ء کیخلاف سراپا احتجاج اساتذہ کی جانب مبذوال کراتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر سے احتجاجی مظاہرین سے مذاکرات کیلئے مشیر تعلیم سمیت حکومت اور اپوزشن اراکین اسمبلی پر مشتمل کمیٹی بھیجنے کی استدعا کی نواب اسلم رئیسانی نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں حکومت تعلیمی ایمرجنسی کی بات کررہی ہے صوبائی کابینہ سے منظور ہونے والے تعلیمی ایکٹ 2018ء کا ڈرافٹ ابھی تک ایوان میں منظوری کے لئے پیش نہیں کیا گیا جب ڈرافٹ ایوان میں پیش کیا جائے گا تب اس پر بحث کرتے ہوئے اپوزیشن اساتذہ اور بلوچستان کے عوام کے مفاد میں اپنا فیصلہ کرے گی اپوزیشن کے رکن نصراللہ زیرئے نے بھی نواب اسلم رئیسانی کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ سے منظور ہونے والا ایکٹ تعلیم دشمنی پر مبنی ہے حکومت کے اس اقدام سے تعلیمی پسماندگی میں مزید اضافہ ہوگا انہوں نے کہا کہ اساتذہ اور بی ڈی اے ملازمین سینکڑوں کی تعداد میں سراپا احتجاج ہیں ۔قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز کو فعال کرنے کا ایک باقاعدہ طریقہ کار وضع کیا جاتا ہے جس پر عملدرکرنے سے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں ڈنڈا اٹھا کر زبردستی لوگوں پر فیصلے مسلط کرنے اور اساتذہ کے ہاتھ پاؤں باندھنے سے اداروں میں بہتری ممکن نہیں ہے آئینی حق کے لئے سراپا احتجاج اساتذہ کی گرفتاری کہیں بھی نہیں ہوتی میری وزیرتعلیم اور صوبائی حکومت کو تجویز ہے کہ وہ باقاعدہ ایک طریق کار وضع کرتے ہوئے اس کے تحت تعلیمی اداروں کا سروے کرنے کے بعد بہتری کے لئے اقدامات اٹھائے ۔صوبے کے کئی پرائمری سکولوں میں صرف ایک ہی ٹیچر تعینات ہے اکثر بی ایچ یوز غیر فعال ہیں کچلا ک میں ہسپتال کے قیام پر 27کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں تاہم وہاں عملے کی عدم تعیناتی کے باعث ادارہ مکمل طو رپر غیر فعال ہے اسے فعال کیا جائے تعلیمی بہتری کے لئے حکومت اقدامات اٹھائے ہم ان کا ساتھ دیں گے تاہم کسی کے حقوق سلب کرکے فیصلے کرنے کی حمایت نہیں کرتے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے بھی اپوزیشن اراکین کے موقف کی تائید کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر سے مطالبہ کیا کہ وہ اپوزیشن اور حکومتی اراکین پر مشتمل کمیٹی قائم کرکے مسئلے کا حل نکالیں۔ اپوزیشن اراکین کے جواب میں صوبائی مشیر تعلیم محمدخان لہڑی کا اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سابق دورحکومت میں اساتذہ کے مسائل حل کیوں نہیں ہوئے بی ڈی اے ملازمین کو سابق حکومت میں نکالا گیا تھا بلوچستا ن میں اساتذہ ڈیوٹی نہیں کرتے میں خود متعدد اضلاع کا دورہ کرچکا ہوں جہاں بارہ اساتذہ تعینات ہیں وہاں چھ اساتذہ ڈیوٹی دے رہے ہیں محکمہ تعلیم کی زبوں حالی کی بنیادی وجہ سیاسی مداخلت ہے ۔اسمبلی کے باہر سراپا احتجاج اساتذہ نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا ہے سراپا احتجاج اساتذہ ہمارے بھائی ہیں اگر وہ اس ضمن میں ہم سے کوئی بھی تعاون چاہتے ہیں توہم تیار ہیں اساتذہ نے ایکٹ کی کابینہ سے منظؤری کے بعد احتجاج کا راستہ اختیار کیاہے ہماری کوشش ہے کہ محکمہ تعلیم میں اصلاحات لا کر تعلیمی نظام کو بہتر بنائیں ۔صوبائی مشیر مٹھا خان کاکڑ نے کہا کہ محکمہ تعلیم میں بہتری پر سیاست کی بجائے صوبائی حکومت کے اقدامات کی حمایت کرنی چاہئے ۔ صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی ایسے کسی فیصلے کی حمایت نہیں کرے گی جس سے تعلیمی نظام اور اساتذہ کو نقصان پہنچے اب تک ایکٹ بلوچستان اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش نہیں کیا گیا اساتذہ سے بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالیں گے ۔رکن اسمبلی سید احسان شاہ نے کہا کہ ہم اساتذہ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ آنے والی نسلوں کو بہتر تعلیم و تربیت دیں گے مگر آج جب میں اسمبلی آرہا تھا تو سراپا احتجاج اساتذہ کے نعرے سن کر ایسے لگا کہ یہ اساتذہ احتجاج کے لئے نہیں غنڈہ گردی کے لئے آئے ہیں سراپا احتجاج اساتذہ اسمبلی ممبران کو مردہ اور ایوان کو قبرستان کہہ کر پکار رہے ہیں میری ڈپٹی سپیکر سے استدعا ہے کہ اساتذہ سے مذاکرات کے لئے جانے والی کمیٹی کو پابند کیا جائے کہ وہ اساتذہ سے پوچھیں کہ وہ اسمبلی ممبران اور اسمبلی کو کن الفاظ سے پکار رہے ہیں جس پر نواب محمد اسلم رئیسانی نے کہا کہ شیخ رشید کی روح ایوان چھوڑ کر بلوچستان اسمبلی کے باہر سراپا احتجاج اساتذ ہ سے مذاکرات کررہی ہے ۔عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ گزشتہ اجلاس کے دوران احتجاج کرنے والے اساتذہ سے ہم نے بات کی ہے اساتذہ تنظیمیں بیٹھ کر مسئلے کا حل چاہتی ہیں اور انہوں نے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ محکمہ تعلیم میں ہونے والی اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے مگر صوبائی کابینہ سے منظور ہونے والے ایکٹ کی چند شقوں پر انہیں اعتراض ہے جنہیں حل کرنا ہوگا ۔جس پر ڈپٹی سپیکر نے حکومت اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل کمیٹی کو اپنے چیمبر میں طلب کرلیا تاکہ اس مسئلے کے حل کو یقینی بنایا جاسکے ۔وقفہ سوالات کے دوران بلوچستا ن نیشنل پارٹی کے اختر حسین لانگو نے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہا کہ مشیر لائیوسٹاک کی جانب سے پیش کئے گئے اعدادوشمار میں کل تیرہ ڈیری فارمز کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ اگلے ہی سوال کے جواب میں تعداد 17بتائی گئی ہے مشیر موصوف بتائیں کہ باقی چار ڈیری فارمز کا چارہ کہاں سے آرہا ہے جس پر مشیر لائیوسٹاک مٹھاخان کاکڑ نے لاعلمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس متعلق محکمے سے جواب طلب کرکے آئندہ اجلاس میں ایوان کو آگاہ کریں گے۔پشتونخوا میپ کے رکن نصراللہ زیرئے نے بھی محکمہ داخلہ سے متعلق سوالات کے جوابات پر عدم اطمینان کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی وزیر داخلہ آئندہ اجلاس میں تیاری کرتے ہوئے ہمارے سوالوں کے تسلی بخش جواب دیں ۔وقفہ سوالات میں ثناء بلوچ کے سوالات آئندہ اجلاس تک موخر کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر نے وقفہ سوالات نمٹادینے کی رولنگ دی ۔اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ کیسکو کو واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث شہر میں بعض ٹیوب ویل کے بجلی کے کنکشنز منقطع کردیئے گئے ہیں گزشتہ حکومت کے دورا ن شہر کے مختلف علاقوں میں قائم کئے گئے150واٹر سپلائی سکیمات کا چارج محکمہ واسا نہیں لے رہا واسا پر محکمہ کیسکو کے پندرہ کروڑ روپے واجب الادا ہیں لہٰذا صوبائی وزیر خزانہ محکمے کو فنڈز کی فراہمی یقینی بنائیں۔ بی این پی کے اخترحسین لانگو نے بھی نصراللہ زیرئے کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ کے بعض علاقوں میں قائم ٹیوب ویل کی اکثریت غیر فعال ہیں اور مشینری خراب ہوچکی ہے لہٰذا محکمہ اس ضمن میں اقدامات اٹھائے جس پر صوبائی وزیر خزانہ عارف محمد حسنی نے کہا کہ محکمہ خزانہ نے فنڈز ریلیز کردیئے ہیں جو ایک دو دن میں متعلقہ محکمے کو موصول ہوجائیں گے۔صوبائی وزیر پی ایچ ای نور محمد دمڑ نے کہا کہ واسا ایک اتھارٹی ہے ہمیں گرانٹ لینے کے لئے حکومت سے رجوع کرنا پڑتا ہے سپیکر کیسکو چیف کو ہدایات جاری کریں کہ جب تک محکمے کو گرانٹ نہیں ملتی وہ بجلی کے کنکشز منقطع نہ کرے صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ اپوزیشن اراکین نصراللہ زیرئے اور اختر حسین لانگو کل میرے آفس آئیں وہاں کیسکو چیف کو طلب کرکے مسئلہ حل کردیا جائے گا۔سید احسان شاہ نے پبلک سروس کمیشن کے ہونے والے مقابلوں کے امتحانات میں پرنٹنگ کی غلطی کی جانب ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ پرچے میں bookکی جگہ lookلکھا گیا تھا لہٰذا خدشہ ہے کہ امتحان میں طلبہ کو فیل نہ کردیا جائے جس پر ڈپٹی سپیکرنے رولنگ دیتے ہوئے چیئر مین پبلک سروس کمیشن کو 26دسمبر کو دن بارہ بجے اپنے چیمبر میں طلب کرلیا ۔اجلاس میں بلوچستان ریونیو اتھارٹی کا مسودہ قانون وزیر خزانہ محمد عارف محمد حسنی نے پیش کیا اس موقع پر اپوزیشن کے رکن سید فضل آغا نے کہا کہ جب اس قسم کے اہم بل ایوان میں آتے ہیں اور قائمہ کمیٹیاں نہ ہوں تو ان کے لئے کوئی سپیشل کمیٹی بنائی جاتی ہے تاکہ حکومت او راپوزیشن ارکان اس پر بحث کرکے بہتر قانون سازی کرسکیں صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ اب تک ایوان کی کمیٹیاں نہیں بنی ہیں اور یہ سرکاری قانون سازی بھی ہے اور حکومت کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے بی این پی کے اختر حسین لانگو نے کہا کہ سردار عبدالرحمان کھیتران کا موقف درست نہیں یہ مسودہ قانون اب ایوان کی پراپرٹی ہے اس پر دونوں جانب سے رائے آنا ضروری ہے بی اے پی کے دنیش کمار نے کہا کہ اس ضمن میں قانون سازی نہ ہونے سے صوبے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے لہٰذا اس مسودہ قانون کو فوری طو رپر منظؤر کیا جائے صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ ہر مسئلے پر کمیٹیاں نہیں بنائی جاسکتیں ایوان میں بل کابینہ کی منظوری کے بعد لائے جاتے ہیں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون سازی کرے صوبائی وزیر میر عارف محمد حسنی نے کہا کہ قانون سازی میں تاخیر سے صوبے کو مالی طو رپر نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا اس لئے مسودہ قانون کو منظور کیا جائے سابق صوبائی وزیر سید احسان شاہ نے کہا کہ چونکہ اب تک اسمبلی کی کمیٹیان نہیں بنی ہیں ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ارکان جلد از جلد کمیٹیاں بنائیں اگر اس وقت کمیٹیاں نہیں ہیں تو پھر مسودہ قانون کو منظور کیا جائے جے یوآئی کے سید فضل آغا نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر پہلے خود اس مسئلے پر سٹینڈنگ کمیٹی بنانے کی یقین دہانی کراچکے ہیں اور اب اس کے برعکس کیا جارہا ہے جو درست اقدام نہیں پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے اسمبلی کے قواعد پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں ڈپٹی سپیکرکمیٹی قائم کرسکتے ہیں تاہم یقین دہانی کے بعد ڈپٹی سپیکر کی جانب سے اب مسودہ قانون منظوری کے لئے پیش کرنے پر اپوزیشن ایوان سے احتجاجاً واک آؤٹ کرتی ہے جس پر اپوزیشن ارکان ایوان سے باہر چلے گئے جس کے بعد اسمبلی میں بلوچستان ریونیو اتھارٹی اور بلوچستان میں سیلز ٹیکس خدمات کا ترمیمی مسودہ قانون متفقہ طو رپر منظور کرلیا گیا اس موقع پر سپیکر نے گزشتہ اجلاس میں باضابطہ شدہ ہونے والی تحریک التواء محرک کی عدم موجودگی پر نمٹانے کی رولنگ دی اجلاس میں صوبائی وزیر ضیاء لانگو نے کہا کہ اپوزیشن ارکان اسمبلی میں جو بات کرتے ہیں انہیں اس کا ثبوت بھی دینا چاہئے پچھلے دنوں ایک رکن کی جانب سے بعض افسران کی جانب سے بھتہ لینے کا الزام لگایا گیا جس سے محکمے کی بدنامی ہوئی ایسی بات کرنے والے اس کا ثبوت بھی دیں بی اے پی کی بشریٰ رند نے پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ کوئٹہ سے مختلف ایئر لائنز کے کرائے انتہائی زیادہ ہیں جنہیں اعتدال پر لانے کی ضرورت ہے بعدازاں اجلاس 27دسمبر کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیاگیا ۔