برطانیہ سے ملنے والے پیسے ملک ریاض کی جیب میں چلے گئے

  • December 9, 2019, 10:28 am
  • National News
  • 204 Views

لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔08 دسمبر 2019ء) برطانیہ سے ملنے والے اربوں روپے چیئرمین بحریہ ٹاؤن ملک ریاض کی جیب میں چلے گئے،یہ وہ رقم تھی جو منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر گئی، یہ38سے 40ارب پاکستان کوملنے چاہئیں تھے، ملک ریاض کے خلاف کریمنل ایکٹ کے تحت انکوائری ہونی چاہیے تھی،لیکن ملک ریاض نے وہ پیسے سپریم کورٹ کو جرمانے کی مدد میں دے دیے۔
سینئر تجزیہ کارسمیع ابراہیم نے بتایا کہ پاکستان کو لندن سے 38سے 40ارب کے درمیان رقم واپس ملے ہیں۔عمران خان کی بڑی محنت سے یہ پیسے واپس ملے ہیں ، بتایا جارہا ہے کہ اس ڈیل میں شریف خاندان کے کچھ لوگ اوردیگربھی شامل ہیں۔ ایک کمپنی کا پتا چلا جو رجسٹرڈ ہے، وہی کمپنی جس کا پانامہ پیپرز میں بھی ذکر ہے۔لیکن حکومت پاکستان اس معاہدے کو خفیہ رکھ رہی ہے۔
بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ برطانیہ نے ملک ریاض سے پیسے وصول کیے اور حکومت پاکستان کو واپس کیے، حکومت کو واپس اس لیے کیے کہ پاکستان میں ایک دیانتدار حکومت ہے اس پیسے کی واپسی میں عمران خان کا بڑا عمل دخل تھا۔لیکن حکومت کے نیچے جو بھی لوگ بیٹھے ہیں، وہ پیسے ملک ریاض کو واپس کردیے۔یہ پیسے ملک ریاض کی جیب میں واپس چلے گئے ہیں۔ شہزاداکبر بتا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے جسٹس عظمت شیخ کی سربراہی میں جس بنچ نے جرمانہ کیا تھا۔
ساڑھے چار ارب کا جرمانہ کیا تھا۔ یہ جرمانے کے پیسے ان پیسوں کی مد میں تصور کیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ چاہیے یہ تھا جب برطانوی ایجنسی این سی اے نے پیسے وصول کیے تھے تو پاکستانی حکومت کو اس جرم کی تحقیقات کروانی چاہیے تھی، کہ کس طرح منی لانڈرنگ ہوئی۔ برطانیہ میں بھی بہت سارے لوگوں نے پیسے واپس کیے۔برطانیہ نے اپنے قانون میں تبدیلی کی اورکرمنل فنانس ایکٹ 2017ء بنایا، 2018ء میں یہ قانون نافذالعمل ہوگیا۔
ملک ریاض کے اس کیس میں این سی اے نے عدالت سے 9آرڈر لیے۔لیکن پاکستان میں کسی نے بھی کریمنل ایکٹ کے تحت تحقیقات نہیں کیں۔ شہزاداکبر نے کہا کہ ملک ریاض کے پیسوں کو سپریم کورٹ کے جرمانے کی مد میں اکاؤنٹ کرلیں گے۔کابینہ خاموش ہے۔سب کہتے کہ برطانیہ کا ہمارے ساتھ معاہدہ ہے اس کے تحت پیسے واپس ہوئے ہیں۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے برطانیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ ہمیں اس کی تفصیلات بارے بتایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ملک ریاض کے پیسوں کی کریمنل تحقیقات کرنی چاہئے تھیں، این سی اے نے کوئی تحقیقات نہیں کیں۔ ان کے قانون میں شامل نہیں ہے۔جبکہ پاکستان کو انکوائری کرنی چاہیے تھی۔ملک ریاض نے آؤٹ آف کورٹ معاملہ حل کرلیا ہے۔اس میں ہر چیز کو چھپایا گیا۔ یہ رقم پاکستان نے غیرقانونی بھیجے گئے۔اسی لیے پاکستان کو واپس مل رہے ہیں۔ملک ریاض نے این سی اے کی پریس ریلیز کو جس طرح بیان کیا کہ این سی اے نے مجھ پر کوئی جرم عائد نہیں کیا۔