گھبرانا نہیں / سکون تو قبر میں ملتا ہے

  • January 10, 2020, 1:58 pm
  • Entertainment News
  • 306 Views

تحریر : ذکاءاللہ محسن


کراچی میں گرم کپڑوں کی بچوں نے فرمائش کی تو تین ماہ سے بے روزگار باپ نے وزیراعظم عمران خان کے نام خط لکھا اور خود کشی کر لی اور یوں وزیراعظم پاکستان کی جانب سے کہا جانے والا فقرہ مجھے پورا ہوتے نظر آیا کہ " سکون تو قبر میں ہی نصیب ہوتا ہے " اگر ریاست ماں کا روپ ہوتی ہے تو وزیراعظم صاحب ہم " اسلامی " جمہوری " اور فلاحی نامی ریاست میں رہتے ہیں جس میں اگر اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو آپ خود ہی ریاست مدینہ کی بات کر کے لوگوں کو عدل و انصاف کے علاوہ ان کو بہتر زندگی مہیا کرنے کی بات کرتے ہیں جس میں لوگوں کو سکون میسر ہو جمہوریت کے بل بوتے پہ ہی آپ آج پاکستان کے وزیراعظم ہیں لوگوں نے آپ کے دئیے گئے منشور، وعدوں اور خوابوں کو ووٹ دیا ہے تبھی آپ اقتدار کی مسند پر سوار ہوپائے ہیں جس کے بعد آپ پر بھاری ذمے داری عائد ہوجاتی ہے کہ آپ " جمہور " سے کیے گئے وعدے پورے کریں اور انہیں ایسی سہولیات فراہم کرنے کی نا صرف سوچ رکھیں بلکے عملی طور پر اقدامات کرکے لوگوں کی زندگیوں کو آسان بناہیں تاکہ انہیں سکون میسر ہوسکے اور رہی بات فلاحی ریاست کی تو آپ گزشتہ 22 سال سے پاکستان کو قائداعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کے مطابق فلاحی ریاست بنانے کی جدوجہد کرتے آئے ہیں.

ہر نا انصافی اور قوم کی بے بسی پر سراپا احتجاج نظر ائے ہیں مگر اب یہ الفاظ کے " سکون تو قبر میں ہی میسر آتا ہے "اب پتا نہیں کہ آپ کے اندر کی یہ مایوسی آپ کی زبان پر آگئی یا آپ کے ہاتھ سے نکلتے حالات نے آپ کو ایسے الفاظ کا استعمال کرنے پر مجبور کر دیا ہے کیا آپ نہیں جانتے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے الفاظ کو " ہار " سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ایسے الفاظ دکھوں اور تکلیفوں کا شکار شخص ادا کرتا نظر آتا ہے کہ " اب تو قبر میں جاکر ہی سکون ملے گا " جب گرم کپڑے نا دلانے پر بچوں کے باپ نے خود کشی کر لی تو باپ تو قبر میں سکون سے لیٹ گیا ہوگا مگر اب سوال یہ بھی ہے کہ کیا اسکے بیوی بچے اب سکون سے اس دنیا پہ گزارا کر سکیں گے اگر ریاست ماں کی طرح ہوتی عوام کو سہولیات فراہم کر رہی ہوتی تو یقیناََ بچوں کا باپ گرم کپڑے لاکر دیتا تو بچے خوشی سے سکون میں آجاتے اور ان کا باپ اسی خوشی میں سکون کی زندگی بسر کرتا مگر اب آپ کہتے ہیں کہ قبر میں ہی جاکر سکون ملنا ہے تو پھر ہم آپ کے وعدوں پر بات کرنا چھوڑ دیں سوال کرنا بند کر دیں آپ کی حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگانا چھوڑ دیں اور آپ کی بات پر پختہ ایمان لے آہیں کہ اس دنیا میں ہمیں سکون نہیں ملے گا اس کے لئے یا تو خود کشی کریں یا طبعی موت مرنے کا انتظار کریں اور اس دوران گزرنے والا وقت اندھے، بہرے اور گونگے ہوکر گزار دیں کہ یہ ملک نا تو اسلامی ہے نا جمہوری ہے اور ناہی فلاحی ہے اس ملک میں سکون اس طبقے کے لئے ہے جس کو " سکون " کی لت لگ چکی ہے اور جس طبقے کو نا تو ملک کی کوئی پرواہ ہے نا ہی اسکی اس رعایا کی جو اقتدار کے ایوانوں کی جانب ترستی نظروں اور دلی امید سے منتظر رہتی ہے کہ جن کو ہم نے منتخب کیا ہے وہ ہمارے لئے ایسے اقدامات کریں گے کہ ہماری زندگیاں سکون سے بسر ہوجاہیں گی ۔

وزیراعظم آپ نے چند روز قبل ایک پناہ گاہ کا دورہ کیا جہاں پہ ایک نوجوان سے گفتگو کرتے ہوئے اپ نے اس سے پوچھا تھا کیا کام کرتے ہو تو اس نے کہا تھا محنت مزدوری کرتا ہوں تو آپ نے پھر پوچھا مزدوری مل جاتی ہے تو اس نے کہا کبھی مل جاتی ہے اور کبھی نہیں ملتی تو آپ نے کہا تھا ہم ایسے انتظامات کر رہے ہیں جس سے روز مزدوری ملے گی مگر اسکے چند روز بعد ہی کنونشن سنٹر میں یہ بھی فرما دیا کہ ہم نوکریاں نہیں دے سکتے وزیراعظم عمران خان صاحب میں کس بات پر یقین کروں ایک جانب آپ فرماتے ہیں میرے پاکستانیوں گھبرانا نہیں دوسری جانب لوگوں کو سکون کی جگہ قبر بتاتے ہیں تو مجھے کم از کم گھبرانے کی اجازت تو دیں تاکہ اسی گھبراہٹ میں جلد اس دنیا سے نکل کر قبر میں سکون حاصل کر سکوں۔

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔