ملک گیرلاک ڈاﺅن جاری تاجروں کے صبر کا پیمانہ لبریزہونے لگا

  • April 7, 2020, 11:45 pm
  • National News
  • 101 Views

پاکستان میں کورونا وائرس کے کیس رپورٹ ہونے اور مقامی سطح پر منتقلی کے کیس سامنے آنے کے بعد سندھ حکومت نے 17مارچ کی شام جزوی لاک ڈاﺅن کا اعلان کیا تھا، جس میں تمام بڑی چھوٹی دکانوں، مارکیٹوں، شاپنگ مالز اور دیگر کاروباری مراکز کو بند کرنے اور وہاں پر لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی عائد کردی گئی تھی جس کے بعد23مارچ کو پنجاب میں لاک ڈاﺅن کردیا گیا.
ملک میں لاک ڈاﺅن سے چھوٹے تاجر اور کاروباری افراد سخت پریشان ہیں ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے کاروبار بند کروادیئے ہیں اب ایک طرف ان کی آمدن بند ہوگئی ہے تو دوسری جانب اخراجات میں اضافہ ہوا ہے ان کا کہنا ہے حکومت دوکانداروں کے یوٹیلٹی بل معاف کرئے اور ان کو دوکانوں اور کاروباری جگہوں کے کرائے ادا کرنے کے لیے مالی معاونت بھی دے. لاہور کے دوکانداروں کا کہنا ہے کہ مجبورا انہیں ہیلپرزاور ملازمین کو بھی عارضی طور پر فارغ کرنا پڑا ہے جس سے بیروزگاری میں اضافہ ہوگا اس وقت تک کئی بڑی کمپنیاں چھانٹیوں کے لیے فہرستیں مرتب کررہی ہیں تو کئی کمپنیوں نے ملازمین کو مئی سے تنخواہوں میں کمی کا عندیہ دیدیا ہے ا س صورتحال میں عام شہری ذہنی تناﺅ کا شکار ہورہے ہیں.
کراچی کے دکاندار اور ان کی قیادت پہلے دن سے ہی اس لاک ڈاﺅن کے فیصلے سے ناخوش دکھائی دے رہی تھی، مگر جب حکومت نے اس لاک ڈاﺅن میں مزید 15 روز کی توسیع کا اعلان کیا تو ایسا لگا جیسے تاجروں کا ضبط جواب دینے لگا ہے. سٹیٹ بینک کے مطابق ریٹیل ہول سیل سیکٹر کا جی ڈی پی میں حصہ تقریباً 19فیصد ہے ملک میں ایک اندازے کے مطابق 25 لاکھ سے زائد چھوٹی بڑی دکانیں ہیں، جبکہ صرف کراچی شہر کی 550 مارکیٹوں میں 6 لاکھ سے زائد دکانیں قائم ہیں اور یہاں سے ایک اندازے کے مطابق 30 لاکھ سے زائد افراد براہِ راست یومیہ اجرت کماتے ہیں.
کراچی شہر میں ملک کی بڑی ہول سیل مارکیٹیں بھی ہیں جہاں سے صرف شہر بھر میں ہی نہیں بلکہ ملک کے مختلف قصبوں، گاﺅں اور شہروں میں اشیا کی ترسیل پہنچائی جاتی ہے۔
مگر لاک ڈاﺅن کی وجہ سے یہ دکانیں گزشتہ کئی ہفتوں سے بند ہیںکراچی کے تاجروں کا کہنا ہے کہ 18مارچ سے اب تک دکانیں مستقل بند ہیں۔ ان دکانوں اور گوداموں میں لاکھوں روپے مالیت کا سامان پڑا ہوا ہے مگر چونکہ یہ مال فروخت نہیں ہورہا اس لیے ان کے پاس خرچ کرنے کے لیے نقد رقم ختم ہوتی جارہی ہے.

کراچی الیکٹرانک مارکیٹ سے تعلق رکھنے والے محمد رضوان کا کہنا ہے کہ ان کی ایسوسی ایشن میں شہر کی 10ہزار دکانیں رجسٹرڈ ہیں صرف صدر کے علاقے میں 4 ہزار الیکٹرانکس کی دکانیں ہیں، جہاں سے کم و بیش 30 ہزار سے زائد خاندانوں کا روزگار وابستہ ہے شہر میں کبھی اتنے طویل عرصے کے لیے مارکیٹیں بند نہیں ہوئیں اور مزید 15دن کا لاک ڈاﺅن کاروباری برادری کا دیوالیہ نکال دے گا.
اسی طرح لاہور کے ہال روڈ‘عابدمارکیٹ‘حفیظ سینٹرسمیت شہر میں الیکٹراونکس ‘کمپیوٹرزاور موبائل فونزکی ہزاروں دوکانیں بند ہیں‘رائل پارک‘اردوبازار‘آﺅٹ فال روڈاور نسبت روڈ سمیت شہر کے ہزاروں پرنٹنگ پریس اور ان سے وابستہ لاکھوں افراد بیروزگار ہوکر گھروں میں بیٹھے ہیں. کتابیں ‘فلیکس اور مختلف چیزیں پرنٹ کرنے والے فیاض ملک کا کہنا ہے ایک پریس کے ساتھ کئی گھروں کا چولہا جلتا ہے جن میں پرنٹنگ والے‘کاغذ اور پرنٹنگ کا سامان بیچنے والے‘ بائنڈنگ ورکر اورکٹنگ والوں کے علاوہ کاغذ کی ویسٹ کا کام کرنے والے شامل ہیں یہ تمام شعبے اپنی اپنی جگہ چھوٹی چھوٹی انڈسٹریاں ہیں یعنی ایک پریس بند ہونے سے درجنوں گھرانے متاثرہوتے ہیں یہاں تو پوری مارکیٹ بند پڑی ہے .
تاجر اتحاد ایسوسی ایشن کراچی کے سربراہ شرجیل گوپلانی کا کہنا ہے دکانوں کی بندش کی وجہ سے ان دکانداروں کو بھی مدد کی ضرورت پیش آگئی ہے جو مشکل حالات میں دوسروں کی مدد کیا کرتے تھے آرگنائزیشن آف اسمال ٹریڈرز کے سربراہ محمود حامد کا کہنا ہے کہ کاروبار کو بند ہوئے 15 دن سے زائد ہوگئے ہیں اور چھوٹے دکانداروں کے پاس جو بھی نقد تھا وہ ختم ہوگیا ہے دکاندار یومیہ رولنگ پر چلتا ہے یومیہ لاکھوں کا سامان خریدتا اور فروخت کرکے اپنا کمیشن نکال لیتا ہے لیکن اب اس بندش سے صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ جو لوگ مشکل وقت میں راشن وغیرہ تقسیم کیا کرتے تھے وہ لوگ بھی اب محتاج ہوتے جارہے ہیں.
کراچی تاجر اتحاد کے سربراہ عتیق میر کا کہنا ہے کہ لاک ڈاﺅن سے یومیہ اجرت والے مزدور کی روزی ختم ہوگئی ہے اگر حکومت نے خود لاک ڈاﺅن ختم نہ کیا تو پھر لوگ سڑکوں پر ہوں گے اور انہیں بزورِ طاقت روکنا مشکل ہوجائے گا. تاجر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کورونا وبا کی وجہ سے بیمار ہونے کا خدشہ ہے، مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ لاک ڈاﺅن کا پہلا مرحلہ ختم ہونے کے بعد دوسرا شروع ہوچکا ہے مگر ابھی تک حکومت کسی بھی بیروزگار فرد کو نہ تو کھانا، نہ راشن اور نہ ہی نقد امداد فراہم کرنے میں کامیاب ہوپائی ہے.
ان کا کہنا ہے کہ وفاق میں ابھی تو ٹائیگر فورس کی بھرتی ہی ہورہی ہے ناجانے یہ فورس کب بنے گی اور کب لوگوں میں امداد تقسیم ہوگی وہ کہتے ہیں کہ وزیرِاعظم نے تعمیراتی صنعت کے لیے پیکج کا اعلان کیا ہے یعنی اس پر عملدرآمد کے لیے سیمنٹ، سریا، ٹائلیں، سینیٹری، بجلی اور دیگر دکانوں کو کھولنا ہوگا، بصورت دیگر تعمیراتی صنعت کا پیکج کامیاب نہیں ہوسکے گا.
دوکانداروں کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ دوکانوں کا کرایہ اور یوٹیلیٹز کی ادائیگیوں سے متعلق لاحق ہے ان کا کہنا ہے کہ مارچ کا مہینہ ختم ہوتے ہی مالکان نے کرائے کا مطالبہ شروع کردیا ہے مگر دکاندار کیا کریں؟ جب کاروبار ہی نہیں ہوا تو رقم کہاں سے دیں؟شرجیل گوپلانی نے کہا کہ ان کی تنظیم سے وابستہ دکانداروں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ نہ تو بندش کے دورانیے کا کرایہ ادا کریں گے اور نہ ہی بجلی گیس یا دیگر یوٹیلیٹی کے بلز کی ادائیگی کریں گے انہوں نے کہا کہ مہینہ ختم ہوتے ہی دکانداروں اور دکان کے مالکان کے درمیان جھگڑے شروع ہوگئے ہیں، جبکہ حکومت نے اس حوالے سے کوئی راستہ نہیں نکالا ہے.
انہوں نے کہا کہ تاجروں نے جو سامان دکانوں پر فروخت کے لیے درآمد کیا تھا، وہ سامان لاک ڈاﺅن کی وجہ سے پورٹ پر پھنسا ہوا ہے اس سامان کی نہ تو کسٹم سے کلئینرنس ہورہی اور نہ ہی اس کو گودام تک منتقل کرنے کے لیے ٹرانسپورٹ اور لیبر فورس دستیاب ہے، اور اگر یہ چیزیں دستیاب ہو بھی جائیں تو قانون نافذ کرنے والے ادارے سامان اتارنے نہیں دے رہے ہیں.
اس وقت کراچی کی بندرگاہوں پر ڈیڑھ لاکھ سے زائد کنٹینرز جمع ہوگئے ہیں اور اگر یہی صورتحال رہی تو پھر پاکستان سے درآمدات اور برآمدات مکمل طور پر بند ہوجائیں گی اور کورونا ایمرجنسی کے لیے بھی سامان کو اتارنے کی گنجائش نہیں بچے گی بندرگاہوں پر موجود ان کنٹینرز کا یومیہ ڈیمرج اور ڈیٹنشن چارج بھی بڑھ رہا ہے بھارت میں شپنگ کمپنیوں نے یہ چارجز معاف کردیے ہیں مگر پاکستان میں یہ معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں شپنگ کمپنیاں ایک کنٹینر پر یومیہ 24 ہزار روپے ڈیٹنشن وصول کررہی ہیں جس کی ادائیگی غیر ملکی کرنسی میں کرنا ہوتی ہے.
ادریس میمن کا کہنا ہے کہ پاکستان کے تاجر موخر ادائیگی کے معاہدے پر بھی چین اور دیگر ملکوں سے مصنوعات درآمد کرتے ہیں اور اس کی ادائیگی معاہدے کے تحت کی جاتی ہے تاجروں نے اس اسکیم پر عمل کرتے ہوئے مال ملک میں منگواکر فروخت کردیا اور ادائیگی سے قبل ہی لاک ڈاﺅن ہوگیا ہے جس کے بعد روپے کی قدر تیزی سے گرگئی۔ یعنی ایک ڈالر جو 158روپے کا تھا وہ اب 166روپے کا ہوگیا ہے کرنسی کی گراوٹ میں فی ڈالر 8 روپے کا نقصان امپورٹر کو اٹھانا پڑے گا.
سٹیٹ بینک نے جن مراعات کا اعلان کیا ہے ان پر عمل تو اس وقت ہوگا جب مارکیٹیں کھلیں گی اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ دکانداروں کی چیک بک اور دیگر کاغذات مارکیٹ میں ہی ہوتے ہیں، اور اس لاک ڈاﺅن کی وجہ سے وہ کچھ بھی نکالنے سے قاصر ہیں چند دکانداروں نے اپنے متعلقہ بینکوں سے رابطہ کیا ہے مگر بینک انتظامیہ نے اس حوالے سے کوئی گائیڈ لائن جاری نہیں کی ہے اس لیے جب تک لاک ڈاﺅن نہیں ختم ہوتا تب تک اس پر عملدرآمد ہوتا بھی نظر نہیں آرہا ہے.
عتیق میر نے کہا کہ میڈیا پر اکثر ایسے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ لوگ راشن یا آٹا لینے کے لیے سینکڑوں کی تعداد میں جمع ہوتے ہیں اگرچہ وہ بھی لاک ڈاﺅن کی خلاف ورزی ہے لیکن ان کو نہیں روکا جاتا کہ وہ سیاسی جماعتوں کی تشہیری مہمات کا حصہ ہے مگرجو لوگ محنت سے روزی کمانے کی اجازت مانگ رہے ہیں ان کے لیے سختی ہے ان کو بھی کمانے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے لیے مجبور نہ ہوسکیں.
انہوں نے کہا کہ چھوٹے تاجروں نے اجلاس کیا ہے اور اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ تمام تر حفاظتی اقدامات اٹھا کر کاروبار کھولنے کے لیے تیار ہیں’ حکومت دوکانیں کھولنے کی اجازت دے تو دوکاندار ہر قسم کی حفاظتی اقدامات کو یقینی بنائیں گے دکانوں کے باہر ہاتھ دھونے اور سینیٹائزر کی فراہمی، ملازمین اور خریداروں کا بخار چیک کرنے، ملازمین اور خریداروں کو ماسک اور دستانے بھی فراہم کرنے کو تیار ہیں.
کراچی اور لاہور کی طرح ملک کے دیگر بڑے ‘چھوٹے شہروں کے تاجروں کے صبر کا پیمانہ لبریزہورہا ہے لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ کے ہول سیلرحاجی شہبازاحمد کا کہنا ہے کہ سب کچھ بند پڑا ہے ہول سیلزکے کنٹینرزڈرائی پورٹس پر پھنسے ہیں ان کے پاس جتنا سٹاک موجود تھا وہ لاک ڈاﺅن شروع ہونے سے قبل ختم ہوچکا ہے کیونکہ فروری میں ہی چین سے مال آنا تقریبا بند ہوگیا تھا انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن سے ہول سیلرزکے کروڑوں روپے مارکیٹ میں پھنس گئے ہیں کیونکہ ہمارا کام ایک سے دوماہ کے کریڈٹ پر چلتا ہے جن ریٹئلرز سے ہم نے پیسے لینے ہیں ان کی دوکانیں بھی بند پڑی ہیں اور وہ ہمارے بل اداکرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں انہوں نے کہا کہ شاہ عالمی کی کاسمیٹیکس مارکیٹ میں ہرماہ اربوں کا کاروبار ہوتا ہے مگر حکومت نے تصور کرلیا ہے کہ کاسمیٹکس‘ہوزری ‘کپڑے‘الیکٹرک و الیکٹرونکس کا کام کرنے والے انسان نہیں اور نہ ہی ان کی ضروریات ہیں .
اعظم کلاتھ مارکیٹ میں کام کرنے والے عمران شیخ بھی اس صورتحال پر انتہائی پریشان دکھائی دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ شاہ عالمی‘رنگ محل‘اعظم کلاتھ مارکیٹ سمیت ان سے ملحقہ ہول سیل مارکیٹس حکومت کو سالانہ اربوں روپے ٹیکس کی مدمیں دیتے ہیں مگر آج مشکل پڑی ہے تو ہمارا کوئی پرسان حال نہیں انہوں نے کہا کہ وہ اتنے مایوسی کا شکار ہیں کہ وہ پاکستان میں کاروبار بند کرکے کسی اور ملک ہجرت کرنے پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں انہوں نے کہا کہ میرے دادا نے اعظم کلاتھ میں ہول سیل کا کام شروع کیا تھا آج ہماری تیسری نسل اس کاروبار کو چلا رہی ہے مگر اس طرح کے حالات ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے مارکیٹ سے ہم نے کروڑوں روپے لینے ہیں مگر ہمارے ہاتھ میں اتنا کیش بھی نہیں بچا کہ اگلے ماہ سے گھروں‘دوکانوں کا کرایہ یوٹیلٹی بل اور بچوں کی فیسیں جمع کرواسکیں .
انہوں نے کہا کہ میں اکیلا ہجرت کے بارے میں نہیں سوچ رہا بلکہ کئی تاجر وں کو جانتا ہوں جو اس پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم بھاری ٹیکس اداکرتے ہیں اگر مشکل وقت میں حکومتوں نے ہماری مدد نہیں کرنی تو ہمارے پاس دوسرا راستہ کیا بچتا ہے؟ . انہوں نے کہا کہ بڑے ملکوں میں ٹیکس دینے والوں کو ایسے حالات میں بے یارومددگار نہیں چھوڑا جاتا وہ حکومتیں تاجروں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں لہذا انہیں ٹیکس دینے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا انہوں نے بتایا کہ ہول سیل مارکیٹیوں میں تاجر اکثر ہنگامی حالات میں بنکوں کی بجائے نجی ذرائع سے قرض حاصل کرتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں بنکوں کی کڑی شرائط‘طویل غیرضروری کاغذی کاروائی ‘درخواستوں کی پراسنگ میں لمبا ٹائم لگتا ہے لہذا ہول سیل مارکیٹیوں میں نجی ذرائع سے قرض حاصل کرنا معمول کی بات ہے کیونکہ چند گھٹنوں میں تاجروں کو مطلوبہ رقم مل جاتی ہے جس پر ایک خاص حد تک شرح سود یا منافع شیئرنگ کی شرائط ہوتی ہیں بنکوں کے قرضوں کو تو حکومت ری شیڈول کروادے گی یا ان پر سود میں کمی ہوجائے گی مگر نجی ذرائع سے حاصل کردہ قرض پر سود کی ادائیگی تو تاجروں کو خود کرنا ہوگی.