حیات بلوچ کو والدین کیسامنے مارنا سفاکیت ہے، عثمان کاکڑ

  • August 19, 2020, 3:15 pm
  • National News
  • 106 Views

اسلام آباد: پشتونخواملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر وسینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہاہے کہ دہشتگردی کانشانہ بنا کر آج پشتونوں کا معاشی قتل عام جاری ہے،ہم نے انگریزوں کی غلامی تسلیم کی تھی اور نہ ہی موجودہ حکومت واسٹیبلشمنٹ کی پشتون دشمن اقدام کو تسلیم کرینگے،70ہزار پشتونوں کو شہید کیاگیاہے اگر 70 لاکھ پشتونوں کو شہید کیاجائے تب بھی ہم اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہونگے۔مرکز مسلسل صوبوں میں مداخلت اور حق تلفی کررہی ہے جس کے وفاقی اکائی پر منفی اثرات مرتب ہونگے،کراچی پر 20سے 25سالوں کے دوران ضیا الحق اور مشرف کے باقیات مسلط تھی آج صفائی کی آڑ میں کراچی کو الگ کرنے کی سازش کی جارہی ہے،پنجاب کی عوام اورسیاسی جماعتیں بنگال کی علیحدگی کے وقت آواز اٹھاتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی لیکن آج ایک بار پھر پنجاب کی سیاسی جماعتیں اور عوام بلوچ پشتون عوام کے قتل عام پر خاموش ہیں فلسطین فلسطینی عوام کا ہے،اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے مشاورت کی جارہی ہے،عوام کسی صورت اس کے حق میں نہیں ہے۔ان خیالات کااظہار انہوں نے ایوان بالامیں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہاکہ ملک کی سیاسی صورتحال آئین وقانون کی بالادستی،خارجہ وداخلہ پالیسی،معاشی پالیسی،امن وامان،فیڈریٹنگ یونٹ اور فیڈریشن کے درمیان تعلقات سے وابستہ ہے،ملک میں صوبوں اور مرکز کے تعلقات کے اثرات تمام ملکی صورتحال پر مرتب ہورہی ہے۔مرکز مسلسل صوبوں میں مداخلت اور حق تلفی کررہی ہے،مرکز ایسے فیصلے کررہے ہیں جس کا صوبوں کو علم بھی نہیں حالانکہ ہمارا آئین اور قانون اس کا اجازت نہیں دیتا،فاٹا،خیبرپشتونخوا،بلوچستان،سندھ ہو اس کے حالات سے سب باخبر ہے،ملک کی بنیاد فیڈریٹنگ یونٹ ہے بدقسمتی سے انگریز نے یہاں پر تقسیم کی تھی صوبوں کے حوالے سے خاص کر پشتونوں کو تقسیم کیا گیا 73سالوں میں کسی حکومت کو خدا نے یہ توفیق ہیں دی کہ پشتونوں کو متحدہ صوبہ چاہے۔وہ بلوچستان کے پشتون،خیبرپشتونخوا ہو یا میاں نوالی کے کو ثقافتی،معاشی ودیگر حوالے سے ایک کریں،انہوں نے کہاکہ سندھ میں مسلسل مداخلت کا سلسلہ جاری ہے کراچی کو الگ کرنے کے منفی اثرات اس ملک کے ماحول پر پڑیں گے،کراچی پر 20سے 25سالوں کے دوران ضیا الحق کے باقیات مسلط تھی یا مشرف کے باقیات تھے،موجودہ وفاقی حکومت کے بہترین اتحادی ہیں،اٹارنی جنرل کراچی کی علیحدگی کی باتیں کررہی ہو یا یہاں جو لوگ این ڈی ایم اے کی شکل میں ہو وزیراعظم کی شکل ہو یہ سب غلط ہے،انہوں نے کہاکہ فاٹا میں آج بھی سویلین اتھارٹی نہیں ہے دہشتگرد کھلے عام گھوم رہے ہیں۔آئی ڈی پیز کے نقصانات کاازالہ نہیں ہواہے،بلوچستان میں گوادر کااختیار کس کے پاس ہے یہاں کوئی اس کی وضاحت نہیں کرسکتا،سیندک ہو یا ریکوڈک ہو یا پشتون بیلٹ میں ماربل ہو،کرومائیٹ ہو یا کوئلہ ہو پر کس کااختیار ہے،ہمیں تو کوئی وضاحت نہیں دے سکتا،ہم بتا سکتے ہیں،انہوں نے کہاکہ چمن میں کوئی کاروبار نہیں کرسکتاایک بار پشتونوں کی نسل کشی کی گئی 70ہزار پشتونوں کو قتل کیا گیا 40لاکھ پشتونوں کو سوات سے وانا تک آئی ڈی پیز بنائے گئے اب معاشی نسل کشی کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے کارخانے نہیں چھوڑ رہے،فاٹا میں انڈسٹری نہیں چھوڑا جارہاہے۔مارئننگ کی اجازت نہیں کاروبار کرنے والوں کو کاروبار کی اجازت نہیں چمن میں 5لوگوں کو شہید جبکہ 41کو زخمی کردیاہے،اپنے قبرستان،مسجد،کاروبار کیلئے پاسپورٹ اور ویزہ حاصل کرناہوگا یہ ہمیں قبول نہیں ہم نے انگریز کا حکم نہیں مانا تو موجودہ حکومت کے حکومت کو بھی تسلیم نہیں کرینگے،پشتون دشمن کوئی بھی حکومت چاہے وہ حکومت ہو،عمران خان ہو اسٹیلبشمنٹ کا ہوکوئی بھی فیصلہ قبول نہیں کرینگے۔انہوں نے کہاکہ آج 18ویں ترمیم کے خلاف سازش کی جارہی ہے جو ہمیں بلوچ،پشتون،سرائیکی،سندھی ہو کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دینگے،صوبوں میں مداخلت،عدلیہ کوآزادی سے نہیں چھوڑ رہے ہیں میڈیا پر پابندی ہے،انہوں نے کہاکہ خارجہ پالیسی نہ تو وزیر خارجہ کو علم ہے اور نہ ہی وزیراعظم کو بلکہ اسٹیلبشمنٹ چلا رہی ہے یہ ان کاکا م نہیں ہے،عدلیہ پر لوگ حملہ آور،میڈیا کو کنٹرول کیاجارہاہے۔پارلیمنٹ کنٹرول ہے یہاں فیصلے لاکر کہاجاتاہے کہ آپ نے من وعن ماننا ہوگایہ ملک کے ساتھ ظلم وزیادتی ہے انہوں نے کہاکہ پشتون نہ دہشتگرد ہیں اور نہ دہشتگرد تھے ہم خود دہشتگردی کے شکار ہوئے ہیں یہ لوگ خود کہہ رہے ہیں کہ یہاں 75آرگنائزیشنز کام کررہے ہیں دہشتگردوں کے کون حساب وکتاب دے گا افسوس یہ ہے کہ یہاں پر تاج صاحب جو رائٹر،دانشور ہے نے صدارتی ایوارڈقبول نہیں کیا گیا۔اس کے بیٹے کو اٹھا لیا گیا احسان اللہ احسان سیف ہاؤس میں ہے لیکن تاج صاحب کے بیٹے کا کسی کو پتہ نہیں کس طرح سے ملک چلایاجارہاہے،بلوچ بچے کو جو سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کررہاتھا کو سامنے مار دیاکسی وزیراعلی،آئی جی یا ڈی سی میں یہ جرات ہے کہ ی پوچھ لیں یہ پاکستان نہیں بلکہ یاغستان ہے جہاں نہ تو آئین ہو یا قانون ہے۔جس کے ساتھ تلوار،ڈنڈا ہو اس کی حکومت ہوگی،سی پیک میں پشتون بلوچ کو کیا ملا سوائے ذلالت کا اور آج بھی ہم خوار ہورہے ہیں،انہوں نے کہاکہ جب ہم نے انگریز کو تسلیم نہیں کیا تو اس طریقے سے چین کو بھی نہیں کرینگے ہمیں اپنے حقوق دیناچاہیے چاہے وہ چین ہو،حکومت ہو یا ریاست کے ذمہ دار،عذاب ہمارے فائدے دوسروں کیلئے یہ سلسلہ بند کرناہوگا، ملک میں دہشتگردوں کے خوف کی فضا ہے پارلیمنٹ بھی خوف کاشکارہے،پشتون اور بلوچ عوام اپنے آپ کو اس ملک میں غلام سمجھتی ہے عملا اسی طرح ہے۔ہم تاریخ میں کسی کے کالونی تھے اور نہ ہی کسی کی بالادستی قبول کرینگے،انہوں نے واضح کیاکہ ہم اپنے بچوں جانوں کی قربانی دے سکتے ہیں لیکن اپنی خوداری،تاریخ کی قربانی نہیں دے سکتے اور نہ ہی اس پر سمجھوتہ کرینگے،70ہزار لوگوں کو شہید کیاگیاہیاگر 70لاکھ لوگوں کو شہید کیاجائے تب بھی ہم اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہونگے،کرایہ کے لوگوں سے ہمارے وطن کو کنٹرول نہیں کیاجاسکتا،ہم جنگ کے خلاف ہے اگر کوئی جنگ کرناچاہتے ہیں تو بھارت کے خلاف جنگ لڑے لیکن یہاں تو اپنے ہی اقوام پر حملہ آور ہیں۔ہماری عوام کو روٹی نہیں مل رہی،مہنگائی ہے بے روزگاری عروج پر ہے،اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے یہاں پرمشاورت ہورہی ہے کہ اسرائیل کو کس طرح تسلیم کیاجائے،فلسطین فلسطینیوں کا ہے اس پر وہاں کی عوام کی حکمرانی،حق خودارادیت ہوگا،سازشیں کی جارہی ہے لیکن عوام اس کے خلاف ہے،انہوں نے کہاکہ پنجاب کے عوام سیاسی جماعتیں بنگال کے وقت کھڑی ہوتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی سب سے زیادہ قصور پنجاب کے سیاسی جماعتوں کا تھا جو بنگالیوں کے قتل پر خاموش تھے۔لیکن آج ایک بار پھر پنجاب کی سیاسی جماعتیں بلوچ پشتون عوام کے قتل عام پر خاموش ہیں،ان سیاسی جماعتوں نے ہمارے مسائل،قتل عام پر بات نہیں کی لیکن ہمارے حق اور دولت پر ڈاکے ڈالے گئے پارلیمنٹ کے مقابلے میں اسٹیلبشمنٹ کی بالادستی کو مانیں گے اور نہ ہی پنجاب کی بالادستی مانیں گے یہ یکجہتی نہیں بلکہ اقوام کی تباہی ہے،ہم برابر ہے۔