حیات بلوچ قتل، قلات اور حب میں احتجاجی ریلیاں و مظاہرے

  • August 21, 2020, 12:11 pm
  • National News
  • 112 Views

قلات: قلات میں طلباء تنظیموں اور آل پارٹیز کی جانب سے نوجوان طالبعلم حیات بلوچ کی تربت میں قتل کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام احتجاجی ریلی نکالی گئی اور شہید لونگ خان چوک پر شمع روشن کئے گئے۔ ریلی میں آل پارٹیز اور طلبا تنظیموں سمیت شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ شرکاء نے حیات بلوچ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان میں عوام کے جان ومال محفوظ نہیں۔آئے روز اس طرح کے ناخوشگوار واقعات رونما ہورہے ہیں ان حالات میں بلوچ قوم کو متحد ہونے کی ضرورت ہے، بلوچستان کی عوام اور طلبا آج سوگوار ہے اہل بلوچستان اور مظلوم طبقات حیات بلوچ کی غم کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ انہوں نے حکومت بلوچستان سے شفاف تحقیقات اور شہید حیات بلوچ کے ورثا کو انصاف دلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ حکومت اسطرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھائیں اور واقع میں ملوث لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ آخر میں جمعیت کے رہنما مولانا محمد قاسم لہڑی نے شہید حیات بلوچ کے درجات کی بلندی کے لیے دعائیں مغفرت کی۔دریں اثناء بلوچ یکجہتی کمیٹی حب کے زیر اہتمام بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں لسبیلہ پریس کلب کے سامنے تربت کے رہائشی کراچی یونیو رسٹی کے طالب علم حیات بلوچ کے قتل کے خلاف ریلی اوراحتجاجی مظاہرہ کیاگیا احتجاجی مظاہرے میں سول سوسائٹی، طلباوطالبات،طلبا تنظیموں کے کارکنان سمیت خواتین نے بڑی تعدادمیں شرکت کی۔
اس موقع پرریلی کے شرکاء سے یاسین بلیدی، شا ہ زیب بلوچ ایڈوکیٹ، اسرار حسن بلوچ، عارف بلوچ،اسلم شاد، مصری خان بگٹی،نور شاد بلوچ،سازین بلوچ،مولانایعقوب ساسولی، عبداللہ بلوچ، ایڈوکیٹ غلام رسول انگاریہ،برکت نادر، محسن لانگو ودیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حیات بلوچ کا قتل انسانی حقوق کی پامالیوں کا سفاکانہ علامت ہے اور بلوچستان میں جاری کئی سالوں سے شورش کے باعث سیکورٹی فورسز کو کھلا چھوڑ دیا گیا جس کے باعث وہاں کی لوگوں کی زندگیوں کو تکالیف کا سامنا ہے بلوچستان بھر میں آئے روز آپریشن کا سلسلہ جاری ہے۔جس سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں آئے دن لوگوں کو گرفتار کرکے لاپتہ کیا جارہا ہے جن میں نہتے بچے اور خواتین بھی شامل ہیں جبکہ اجتماعی سزا کے طور پر ہزاروں خاندان کو دربدر کیا گیا ہے۔مقررین نے کہا کہ حیات بلوچ کا قتل انہیں جابرانہ پالیسیوں کی کڑی ہے جس سے پورا بلوچستان آگ کی طرح جل رہا ہے حیات بلوچ جو کراچی میں اپنی تعلیم حاصل کر رہے تھے انہیں بھی بنا کسی جرم کے مار کر قتل کر دیا گیا۔جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ بلوچستان میں ان اداروں کو مکمل طور پر کھلی چھوٹ دی گئی ہے جس سے ان کے ہاتھوں انسانیت شرمسار ہے۔مقررین نے مزید کہا کہ ایک جانب بلوچ طلبہ کے تعلیمی سرگرمیوں کو مسلسل متعصبانہ پالیسیوں کی بھینٹ چڑ چکی ہے تو دوسری جانب بلوچستان میں مختلف کارروائیوں میں بچوں اور خواتین سمیت تمام طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔یوں ہر طرف بلوچستان کے باشعور طبقے کو ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے جس میں تعلیم یافتہ بلوچ نوجوان سب سے زیادہ نشانہ پر ہیں جن کی گمشدگی روزنامہ معمول بن چکا ہے جبکہ اب حیات کی سرے عام قتل ایک نئے راستہ کی طرف جانے کا عندیہ ہے۔