حکومت کسی اور کے کہنے پر یہاں کے حالات خراب کر رہی ہے، نواب رئیسانی

  • August 21, 2020, 12:17 pm
  • National News
  • 144 Views

کوئٹہ: چیف آف ساراوان سابق وزیراعلیٰ بلوچستان رکن اسمبلی نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کسی اور کے کہنے پر یہاں کے حالات خراب کر رہی ہے عمران خان اور جام کمال کے ساتھ بیٹھے لوگوں پر ریاستی اداروں کا ہاتھ ہے حزب اختلاف میں بیٹھے افراد اپنا حقیقت پسندانہ موقف رکھنا چاہتے ہیں جبکہ ہماری باتوں سے اسٹیبلشمنٹ خوش نہیں ہے۔عمران اور جام کمال کے ساتھ بیٹھے لوگ جھوٹ بولتے ہیں جنہوں نے جی حضوری کی کتاب پڑھی ہوئی ہے جام کمال فخریہ کہتے ہیں کہ میں چالیس وٹس اپ گروپس کا ایڈمن ہوں جام حکومت میں آئے دن کوئی وزیر ناراض اور کوئی ساتھ چھوڑ رہا ہے پھر منانے جا رہے ہیں یا کسی کو دھمکیوں کے ذریعے روک رہے ہیں صوبائی بجٹ کی تقسیم میں بلوچستان حکومت نے نا انصافی کی ہے۔اگر اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ وہ پاکستان میں ان جیسوں کے ذریعے جمہوریت کو بہتر انداز میں پنپنے کا موقع دے رہے ہیں یہ بہت کمزور لوگ ہیں، ہر دن رنگ بدلتے ہیں آصف علی زرداری شروع دن سے انہیں وزیراعلی بلوچستان نہیں بنانا چاہتے تھے، ان سے ریکوڈک منصوبے، ٹرانسفر پوسٹنگ اور پرویز مشرف کے معاملے پر اختلافات تھے اگر سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں گی تو یہ فیڈریشن ٹھیک چلے گی۔آئین کے مطابق چلے گی اور اگر وہ سیاسی جماعتوں کو کمزور کریں گے تو ہوگا یہ کہ وہ آتے رہیں گے کوئی ریٹائرمنٹ سے پہلے ایکسٹینشن لیتا رہے گا نجی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے نواب رئیسانی نے کہا ہے کہ آصف علی زرداری شروع دن سے انہیں وزیراعلی بلوچستان نہیں بنانا چاہتے تھے، ان سے ریکوڈک منصوبے، ٹرانسفر پوسٹنگ اور پرویز مشرف کے معاملے پر اختلافات تھے۔پیپلز پارٹی ایک طرف پرویز مشرف کو بینظیر بھٹو کا قاتل کہتی دوسری طرف پارٹی قیادت کے گھر سے ان کا کوئٹہ آمد پر استقبال کرنے کے لیے کہا جاتا۔ وزارت اعلی کے دور میں فوجی قیادت کی جانب سے جلا وطن بلوچ رہنماں سے مذاکرات کے لیے کہا گیا مگر ضمانت کے بغیر مذاکرات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ حکومت کے لیے صرف عمران خان ہی آپشن نہیں، ان کے علاوہ بھی بہت سے آپشنز ہیں، سردار اختر مینگل نے عمران حکومت کی حمایت ختم کرکے اچھا فیصلہ کیا۔نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ گیلپ سروے میں کہا جارہا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت گر گئی ہے۔ عمران خان کی جماعت پہلے کون سی مقبول تھی جو اب ان کی مقبولیت گر گئی ہے۔ تحریک انصاف پہلے ہی دھاندلی کے ذریعے آئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی کہتا ہے کہ آپشنز ختم ہوگئے ہیں تو ایسا نہیں ہے، آپشنز ہمارے پاس بہت ہیں، دو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ہیں۔ان کے علاوہ دیگر جماعتیں بھی ہیں۔ حکومت کی تبدیلی جمہوریت کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے بڑے بڑے دعوے کئے مگر سب دعوے مبالغہ آرائی پر مبنی تھے۔ نواب رئیسانی نے مزید کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی صورتحال غیر متوقع ہوتی ہے کیونکہ یہ فوج کے ہاتھ میں ہے۔ مطلب ایک سرکاری ملازم اور سیاستدان کی سوچ اور فکر میں فرق ہوتا ہے، تاہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے سیاستدان کیا کرتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگ کیا کرتے ہیں؟ پتہ نہیں عمران خان کو لانے والے کیا سوچ رہے ہیں۔ان کو بھی سوچنا چاہیے کہ یہ فیڈریشن ضد اور طاقت سے نہیں چلے گی۔ آپ نے دوسرے کی بات سننی ہے اور اگر اس کی بات میں منطق ہے، تو آپ اس پر عمل بھی کریں اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ نہ ہم منطق، دلیل ناہی آئین و قانون مانتے ہیں اور سب کچھ ڈنڈے کے ساتھ چلائیں گے تو یہ بہت مشکل ہے۔ اس طرح فیڈریشن نہیں چل سکتی بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت کی حمایت سے دستبردار ہونے سے متعلق سوال پر نواب رئیسانی نے کہا کہ عمران خان کی حکومت سے علیحدگی اختیار کرکے سردار اختر مینگل نے اچھا فیصلہ کیا۔البتہ تحریک انصاف کی حکومت کی حمایت کرنا سردار اختر مینگل کی غلطی نہیں تھی، بی این پی نے پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ چھ نکاتی معاہدہ کیا کم از کم دنیا کو یہ تو پتہ چلا کہ عمران خان اور ان کو لانے والوں نے اپنے وعدے پورے نہیں کئے۔ کیا بلوچستان میں نواب ثنااللہ زہری کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرکے بی این پی نے غلطی کی۔ کیا بلوچستان عوامی پارٹی کے وجود میں آنے سے صوبے کی سیاسی جماعتیں کمزور ہوئیں۔اس سوال پر نواب اسلم رئیسانی کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں اس لئے کمزور نہیں ہوئیں کہ کس نے کس کو ووٹ دیا یا نہیں دیا۔ اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں کو کمزور کررہی ہے، ان کے لوگ سیاسی جماعتوں میں گھسے ہوئے ہیں جو چیزوں کو ان کے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ نظام چلانے والے یہی سیاسی لوگ ہوتے ہیں اس لئے ہر سیاسی جماعت اور ان کے کارکنوں کو ایسے لوگوں اور کالی بھیڑوں پر نظر رکھنی چاہیے۔جو کسی اور کے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں۔ ان کو سیاسی میدان سے دور رکھنا چاہیے۔ یہ میں صرف سیاسی جماعتوں کے لیے نہیں کہتا، میں جو کہہ رہا ہوں وہ فیڈریشن کے استحکام کے لیے کہتا ہوں۔ اگر سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں گی تو یہ فیڈریشن ٹھیک چلے گی، آئین کے مطابق چلے گی اور اگر وہ سیاسی جماعتوں کو کمزور کریں گے تو ہوگا یہ کہ وہ آتے رہیں گے۔ کوئی ریٹائرمنٹ سے پہلے ایکسٹینشن لیتا رہے گا۔چناں چہ کب تک یہ ایکسٹینشن میں چلتے رہیں گے، یہ ایکسٹینشن والے دھندے بند ہونے چاہئیں۔ مطلب ہم 1973 کے آئین کے پابند ہیں۔ حالانکہ میری تجویز اور رائے نئے عمرانی معاہدے کی ہے لیکن اگر میں اس آئین کا پابند ہوں تو ان کو بھی اس آئین کی پابندی کرنی چاہئے نواب اسلم رئیسانی نے وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جام کمال فخریہ کہتے ہیں کہ میں چالیس وٹس اپ گروپس کا ایڈمن ہوں۔جام صاحب کی حکومت میں آئے دن کوئی وزیر ناراض ہو رہا ہے، کوئی وزیر ساتھ چھوڑ رہا ہے۔ پھر یہ ان کو منانے جا رہے ہیں یا کسی کو دھمکیوں کے ذریعے روک رہے ہیں۔ صوبائی بجٹ کی تقسیم میں بلوچستان حکومت نے نا انصافی کی ہے۔ اپوزیشن ارکان کو جو تیرہ کروڑ روپے کے منصوبے ملے ہیں وہ بہت کم ہیں، آج کل ایک واٹر سپلائی اسکیم بھی دو کروڑ روپے سے کم میں نہیں بنتی۔دوسری جانب حکومت، ان کی اتحادی جماعتوں اور ان جماعتوں میں اپنے پسندیدہ افراد کو تین تین چار چار ارب روپے کے منصوبے دیے گئے ہیں۔ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ ہمارے حلقوں میں مداخلت نہ کی جائے اور ترقیاتی بجٹ میں منصوبے برابری کی بنیاد پر منصوبے شامل ہونے چاہئیں۔ جام نے اپنے بہت سے چہیتوں کو بڑے فنڈز دیے ہوئے ہیں۔ کام تو ٹکے کا بھی نہیں ہوگا لیکن ان فنڈز سے ان اشخاص کو کمیشن ملیں گے۔وہ بڑی بڑی زمینیں خرید رہے ہیں۔ زور سے دھونس دھمکیوں سے وہ لوگوں کو خرید رہے ہیں، لوگوں کو اغوا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جب میں وزیراعلی تھا جس نے مجھے ووٹ دیا جس نے ووٹ نہیں دیا یعنی مخالف موافق سب کے ساتھ برابری کی بنیاد پر سلوک کیا۔ میں نے کسی کو اوپر یا کسی کو نیچے نہیں کیا۔ موجودہ حکومت تو کسی اور کے کہنے پر یہاں کے حالات خراب کر رہی ہے۔ عمران خان اور جام کمال کے ساتھ بیٹھے لوگوں پر فوج کا ہاتھ ہے۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ آپ ان کے سر سے ہاتھ ہٹائیں کل یہی لوگ آکر ہمارے ساتھ بیٹھ جائیں گے۔نواب رئیسانی کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف میں بیٹھے افراد اپنا حقیقت پسندانہ مقف رکھنا چاہتے ہیں جبکہ ہماری باتوں سے اسٹیبلشمنٹ خوش نہیں ہے۔ حالانکہ ہم انہیں صحیح بات بتاتے ہیں۔ دوسری طرف عمران اور جام کمال کے ساتھ بیٹھے لوگ جھوٹ بولتے ہیں جنہوں نے جی حضوری کی کتاب پڑھی ہوئی ہے۔ ہر دور میں حکومت کے ساتھ رہے ہیں۔ اگر اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ وہ پاکستان میں ان جیسوں کے ذریعے جمہوریت کو بہتر انداز میں پنپنے کا موقع دے رہے ہیں۔ تو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بہت کمزور لوگ ہیں، ہر دن رنگ بدلتے ہیں لہذا ان سے سب کو ہوشیار رہنا چاہیے۔اس ذیل میں نواب رئیسانی کا مزید کہنا تھا کہ جام حکومت اور ان کے پیچھے بیٹھے افراد صوبے کے قبائلی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔ قبائل کو آپس میں لڑوانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ جام اور اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مقاصد کے لیے میرے بھائی سراج رئیسانی کو مجھ سے لڑانے کی کوشش کی۔ پیپلز پارٹی سے اختلافات سے متعلق سوال پر نواب اسلم رئیسانی کا کہنا تھا کہ ہم تو پیپلز پارٹی کو بلاول زرداری اور آصف علی زرداری کی بجائے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بلاول زرداری، بھٹو صاحب کے نواسے ہیں اور نوجوان ہیں میں نے ان کی تقریر سنی ہے۔ان کی پولییٹیکل اپروچ دیکھی ہے، اچھے نوجوان ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب آصف علی زرداری کو آرام کرنا چاہیے اور بلاول زرداری کو معاملات دیکھنے چاہیے۔ نواب رئیسانی نے کہا کہ پیپلز پارٹی والے پرویز مشرف کو بے نظیر بھٹو کا قاتل کہتے ہیں۔ لیکن جب میں وزیراعلی تھا۔ پرویز مشرف پاکستان کے صدر تھے وہ کوئٹہ آرہے تھے۔ اس وقت چیف سیکریٹری بلوچستان ناصر محمود کھوسہ تھے تو انہیں میں نے کہا کہ پرویز مشرف کو منع کریں کہ وہ کوئٹہ نہ آئیں۔ ہم اس کو پسند نہیں کرتے لیکن زرداری ہاس اسلام آباد سے بار بار فون آرہے تھے میں نے کوئی فون اٹینڈ نہیں کیا۔پھر میرے اسٹاف کے ممبرز کو فون آئے کہ پرویز مشرف کا ایئر پورٹ پر استقبال کیا جائے۔ میں ایئر پورٹ گیا اور نہ ہی پرویز مشرف کا استقبال کیا۔ پرویز مشرف نے پروٹوکول آفسر سے کہا کہ وزیراعلی کو آنا چاہیے تھا۔ پیپلز پارٹی کے پانچ ایم پی ایز ایئر پورٹ گئے اور انہوں نے پرویز مشرف کو ریسیو کیا اور ان کے ساتھ لنچ بھی کیا۔ اب جب ایک سیاسی جماعت اس طرح کی حرکت کرتی ہے تو ظاہر ہے انسان کو دکھ ہوتا ہے۔ ایک طرف پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ پرویز مشرف ہمارا قاتل ہے اور دوسری طرف وہ اپنے ایم پی ایز پرویز مشرف کو ریسیو کر نے بھیجتی ہے۔آصف علی زرداری سے اختلافات سے متعلق سابق وزیراعلی کا کہنا تھا کہ انتخابات کے بعد جب خورشید شاہ اور اعجاز جاکھرانی کوئٹہ آئے تو مجھے پتہ چلا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کسی اور کو وزیراعلی بلوچستان بنانا چاہتے تھے لیکن اللہ کی مہربانی ہوئی اور میں وزیراعلی بن گیا۔ پہلے دن سے ہی آصف زرداری مجھے پسند نہیں کرتے تھے۔ وزیراعلی بننے کے بعد اسلام آباد سے تقرر و تبادلے ہوتے تھے۔ اس عمل کو میں نے بند کرایا۔ پھر ریکوڈک کا مسئلہ آیا، میری ڈیلنگ آصف علی زرداری کو پسند نہیں تھی کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ ریکوڈک نہ میرا ہے، نہ آصف زرداری کا ہے۔یہ تو بلوچستان کے عوام کی ملکیت ہے۔ یہ ذخائر بلوچوں کے علاقے میں ہیں اور بلوچوں کو ملنے چاہیے۔ نواب اسلم رئیسانی نے بتایا کہ جس طرح ٹی تھیان کاپر کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا گیا۔ کمپنی کو 75فیصد شیئر دیے گئے اور ہمیں (بلوچستان) کو پچیس فیصد شیئر دیے گئے۔ پچیس فیصد شیئر میں بھی کمپنی نے کہا کہ وہ ہمارے لئے قرضے کا بندوبست کرے گی۔ ارے بابا! مال بھی ہمارا اور قرض کا بھی تم ہمارے لئے بندوبست کرو گے۔ جب ہم نے جمع تفریق کی تو قرض کی شرح سود 14,15 فیصد بن رہی تھی۔ ظاہر پہلے دن سے مجھے یہ قبول نہیں تھا اور آج بھی بہت سی چیزوں کو ہم دیکھ رہے ہیں کہ بلوچستان کے لوگوں کے مفاد میں نہیں۔میں نے گوادر کو سرمائی دار الحکومت قرار دیا، وہاں وزیراعلی سیکریٹریٹ بنایا۔ مگر ڈاکٹر عبدالمالک سمیت کوئی بھی وزیراعلی ایک دن بھی وہاں جاکر نہیں بیٹھا، اس دفتر پر ڈاکٹر مالک اور باقیوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے کسی اور نے قبضہ کرلیا ایک سوال کے جواب میں سابق وزیراعلی نے کہا کہ ہمارا مسئلہ سیاسی ہے انتظامی نہیں۔ جب تک پاکستان میں بسنے والی تمام قوموں کے تاریخی حقوق تسلیم نہیں کیے جاتے تو یہ معاملات اسی طرح چلتے رہیں گے۔یہاں بلوچ، پشتون، سندھی اور جو بھی اقوام آباد ہیں۔ سب کا اپنا کلچر ہے، اپنی زبان ہے، ہماری اپنی تاریخ ہے اور ہمارا اپنا علاقہ ہے۔ ہم یہاں کوئی ہزار، دو ہزار سال پہلے سے آباد ہیں۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو نئے عمرانی معاہدے کے لیے آگے آنا چاہیے۔ ہر دن کے مارشل لا اور ہر دن کی ڈکٹیشنز، اس طرح حکومتیں نہیں چلیں گی۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے 1940 کی قرارداد منظور کی، محمد علی جناح نے خان آف قلات کے ساتھ معاہدے پر دستخط کئے۔ یہ دو اہم دستاویزات تھیں اس پر کیوں عملدآمد نہیں ہوتا۔آیا جو دستخط محمد علی جناح نے کئے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ آج محمد علی جناح کے اقوال چھپ رہے ہیں، کرنسی پر ان کی تصاویر ہیں، یہ سب ٹھیک ہیں لیکن انہوں نے جو کمٹمنٹ ہم سب کو دی ان پر کسی نے عمل نہیں کیاجلا وطن بلوچ قوم پرست جماعتوں کے ساتھ مذاکرات سے متعلق سوال کے جواب میں نواب اسلم رئیسانی کا کہنا تھا کہ مجھے بھی وہاں سے کہا گیا کہ آپ جائیں خان قلات سے بات کریں۔خان قلات ہم سب بلوچوں کے بزرگ ہیں۔ ہمارے آپس میں اختلافات صحیح لیکن وہ ہمارے بڑے ہیں۔ اگر میں جاں خان قلات یا کسی اور عزیز سے جو جلا وطن ہیں اور میں ان سے بات کروں اور کل کے دن وہ پاکستان آئیں اور ان کو اسٹیبلشمنٹ گرفتار کرلے، پکڑ لے تو پھر ہمارے لئے کیا رہ جائے گا؟ ہم تو یقین دہانی چاہتے ہیں۔ سابق وزیراعلی بلوچستان نے کہا کہ انہیں اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے گورنر ذوالفقار علی مگسی، ڈی جی آئی ایس آئی ظہیر الاسلام اور کمانڈر سدرن کمانڈ جنرل عالم خٹک کے ہمراہ دعوت پر بلایا اور کہا کہ آپ بیرون ملک بیٹھے بلوچ رہنماوں سے بات کریں۔نواب رئیسانی کے مطابق میں نے انہیں کہا کہ میں اس طرح بات نہیں کروں گا۔ میں اگر خان قلات سے بات کروں گا یا کسی اور دوست سے تو آئی ایس آئی کا ایک بریگیڈیئر رینک کا آفیسر میرے ساتھ ہونا چاہیے اور جب میں خان قلات سے بات کروں گا تو میں اردو میں ان سے بات کروں گا تاکہ جو آفیسر میرے ساتھ بیٹھا ہوں وہ بھی سنیں کہ میں کیا بات کر رہا ہوں۔ کیونکہ اگر ہم اپنی زبان میں بات کریں گے۔تو ہم تو ہیں مشکوک۔ بلوچ مشکوک، پشتون مشکوک، سندھی مشکوک۔ ہم پر پنجاب کے حکمران شک کرتے ہیں نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ آج فیڈریشن میں خانہ جنگی شروع ہے۔ کوئی قبول کرتا ہے کوئی قبول نہیں کرتا۔ کسی کو نظر آتا ہے کسی کو نہیں آتا لیکن میں صاف صاف فیڈریشن آف پاکستان میں پشتون، بلوچ اور سندھی علاقوں میں ایک خانہ جنگی دیکھ رہا ہوں۔اگر یہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو اٹھا کر اور پھر ٹارچر کرکے مسخ شدہ لاشیں پھینک کر، لوگوں کو ڈرا دھمکا کر یہ معاملات ٹھیک ہوجائیں گے تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ فی الوقت تو لوگ دب جائیں گے، خاموش ہوجائیں گے۔ مگر اگر سات دہائیوں میں لوگ خاموش نہیں ہوئے ہیں تو میرے خیال میں اگلے سات دہائیوں تک یہ چلتا رہے گا۔ دفاع اور خارجہ جیسے امور کے علاوہ باقی تمام امور صوبوں کے پاس ہونے چاہیے۔انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہونے چاہیے۔ اکثریت کی حکمرانی ہونی چاہیے۔ مگر پنجاب کی اکثریت باقی اکائیوں کے مطابق ہونی چاہیے۔ یہ نہیں کہ پنجاب کے دو ڈھائی سو ایم این اے ہوں، وزیراعظم بھی ہمیشہ ان کا ہو، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع بھی ان کا ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس وفاق کو ہم نے چلانا ہے۔ اگر وفاق کو کچھ ہوتا ہے، تو یہاں ایک فساد تیار ہے پھر کوئی آرام سے نہیں بیٹھ سکے گا۔