شارجہ کے ہسپتال کی حاملہ پاکستانی خاتون کے ساتھ ایسی حرکت کہ سن کر کوئی بھی انسان صدمے میں چلا جائے

  • January 13, 2016, 9:05 pm
  • Entertainment News
  • 3.79K Views

ابوظہبی (مانیٹرنگ ڈیسک) شارجہ میں مقیم ایک حاملہ پاکستانی خاتون کے لئے مقامی ہسپتال نے اس وقت قیامت کا سماں پیدا کر دیا جب انہیں بتایا گیا کہ وہ ایڈز کی مریضہ ہیں، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ہسپتال کی طرف سے غلط رپورٹ دی گئی تھی۔
گلف نیوز کے مطابق29 سالہ خضرا افرین فرہاد نے عجمان کے ایک ہسپتال میں زچگی کے لئے رجسٹریشن کروائی تھی اور وہ اسی ہسپتال کی شارجہ میں واقعہ شاخ میں ایک ڈاکٹر سے مشاورت لے رہی تھیں۔ 9 دسمبر کو ڈاکٹر نے انہیں متعدد ٹیسٹ کروانے کے لئے کہا، اور اگلے دن رپورٹ دیتے ہوئے انہیں بتایا گیا کہ وہ ایچ آئی وی پازیٹو، یعنی ایڈز کی مریضہ ہیں۔
متاثرہ خاتون کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر نے ناصرف یہ بھیانک خبر انہیں براہ راست سنائی بلکہ یہ بھی کہا کہ وہ فون پر اپنے خاوند سے اس معاملے پر بات کریں۔ خاتون کے خاوند فرہاد نسیم، جو کہ دبئی میں ریسٹورنٹ منیجر ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ یہ خبر سن کر ساکت رہ گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹروں نے انہیں یہ بھی کہا کہ ایسی صورتحال میں بچے کی پیدائش بھی آپریشن کے ذریعے ہوگی تاکہ اس کے تحفظ کو زیادہ سے زیادہ یقینی بنایا جاسکے۔ خاتون کو مزید ٹیسٹ کے لئے وزارت صحت کی لیبارٹری بھیج دیا گیا، لیکن جب وہاں ٹیسٹ کئے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ ایڈز کی مریضہ نہیں تھیں۔

فرہاد نسیم کا کہنا ہے کہ ہسپتال کی طرف سے دی جانے والی غلط رپورٹ نے انہیں زندگی کے شدید ترین صدمے سے دوچار کیا اور ان کی اہلیہ ناقابل بیان کرب سے گزریں۔وہ کہتے ہیں کہ ہستپال کی طرف سے کم از کم معذرت ضرور کی جانی چاہئیے تھی، لیکن یہ بھی نہیں کیا گیا۔
ہسپتال کا موقف ہے کہ خاتون کا پہلا ٹیسٹ پازیٹو آیا تھا اور دوسرا نیگیٹو تھا، اور انہیں نیگیٹو ٹیسٹ کے متعلق بتایا گیا تھا، جبکہ وزارت صحت سے تیسرا ٹیسٹ کروانے کو کہا گیا تھا۔ متاثرہ خاتون نے اس موقف کو درست قرار نہیں دیا اور ان کے خاوند اب ہسپتال کے خلاف کارروائی پر غور کررہے ہیں۔
گلف نیوز کے مطابق ایک سینئر ڈاکٹر، جو کہ حکومتی اداروں میںفرائض سرانجام دے چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ کسی بھی مریض کا ایڈز ٹیسٹ پازیٹو آنے پر اسے براہ راست اطلاع نہیں دی جاسکتی، بلکہ ڈاکٹر کا فرض ہے کہ وہ معاملہ وزارت صحت کو بھجوائے جہاں تیسرے ٹیسٹ کے بعد متعلقہ اداروں کو اطلاع کی جاتی ہے، جن میں پولیس اور امیگریشن بھی شامل ہیں، ڈاکٹر براہ راست مریض کو اطلاع نہیں دے سکتا۔