16اکتوبر ....خوراک کا عالمی دن اور پاکستان

  • October 16, 2016, 2:42 pm
  • Health News
  • 198 Views

تحریر:رانا اعجاز حسین۔ ملتان
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے زیر اہتمام ہر سال 16 اکتوبر کو عالمی یوم خوراک منایا جاتا ہے۔انیس سو اناسی میں اس ادارہ کی بیسویں جنرل کانفرنس میں یہ دن باقاعدہ طور پر منانے کی منظوری دی گئی تھی، اس وقت سے آج تک اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک میں عالمی یوم خوراک منایا جاتا ہے جس کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر خوراک کی پیداوار میں اضافہ کرنا اور خوراک کی قلت کے خاتمے کے لئے اقدامات کرنا ،عالمی خوراک کے مسئلے سے متعلق عوام میں آگاہی پیدا کرنا، اور ناقص غذا اور غربت کے خلاف جدوجہد کرنا، مستقبل میں غذائی قلت جیسے مسئلے سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی تیا ر کر نا ہے،تا کہ آنے والی نسلوں کو غذائی قلت کے عذاب سے بچا یا جاسکے۔
اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر میں مختلف تقریبات و سیمینار کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا ہے کہ 2000ءسے ترقی یافتہ ممالک میں غذائی قلت کا لیول 29 فیصد کم ہوا ہے ،لیکن 2030ءتک اسے بالکل ختم کرنے کیلئے عالمی ہدف کے مطابق کوششیں مذید تیز کرنا ہونگی، غذائی قلت کے خاتمے کیلئے پاکستان، بھارت، ہیٹی، یمن اور افغانستان سمیت 45 سے زائد ممالک کو خصوصی طور پر کوششیں کرنا چاہئے۔گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں کل نوسو پچیس ملین افراد غذائی قلت کا شکار ہیں جن میں بائیس ممالک ایسے ہیں جو شدید غذائی بحران کا شکار ہیں۔ ان میں سے سولہ ممالک میں قدرتی آفات کی وجہ سے غذائی بحران بڑھا۔ دنیا بھر کا جائزہ لیا جائے تو بھوک کی شرح سب سے زیادہ افغانستان میں ہے جس کے بعد چاﺅ، کوریا ، ایتھوپیا ، ہیٹی ، صومالیہ، سوڈان ہیں۔ پاکستان کی اٹھارہ کروڑ سے زائد آبادی میں سے پانچ کروڑ افراد ایسے ہیں جنھیں پیٹ بھر روٹی میسر نہیں۔جبکہ امراءکا ایک بڑا طبقہ خوراک وافر مقدار میں میسر ہونے کے باعث استعمال نہ کرکے ضائع کردیتا ہے۔ اس دن کو منانے کا ایک مقصد ضرورت سے زائد میسر خوراک کے حامل افراد کو اس بات کا احساس دلانا ہے کہ وہ طبقاتی فرق کو مٹاتے ہوئے دوسروں کا بھی خیال رکھیں۔ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں جبکہ پاکستان میں غربت و مہنگائی کے باعث غریب افراد اپنی آمدنی کا ستر فیصد خوراک پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے بھوک کا شکار غریب ممالک کو مالی امداد فراہم نہیں کی جارہی۔ افریقی و مشرق وسطیٰ کے وہ ممالک جو خانہ جنگی، ایڈز اور ٹی بی کے عذاب میں مبتلا ہیں وہاں بھوک کا شکار افراد کی تعداد میں تشویشناک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ خوراک کے عالمی دن کے موقع پر اس بات کو بھی موضوع بحث بنایا جانا ضروری ہے کہ ہر سال 1.3 بلین ٹن خوراک ضائع ہو جاتی ہے ، اس ضائع ہونے والی خوراک کے محض ایک چوتھائی حصے سے ہم دنیا بھر میں موجود ایک عرب سے زائد بھوکے لوگوں کو کھانا کھلا سکتے ہیں۔
قدرت الٰہی نے سرزمین پاکستان کو بیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے،زرعی زمین تو قدرت کا بہت بڑا عطیہ ہوتی ہے اورپاکستان اس نعمت سے مالا مال ہے۔پاکستان میں اس وقت کل قابل کاشت زمین کا رقبہ تقریباً 55 ملین ہیکڑ ہے۔لیکن افسوس کہ اس زمین کا صرف آدھا رقبہ ہی استعمال میں لایا جا رہا ہے جبکہ بقایا سرمائے کی کمی ،پانی کی قلت ،سرکاری جاگیر اور دیگر مسائل کی وجہ سے بیکار پڑی ہے۔ لیکن پھر بھی ہمارے ملک میں زراعت کا شعبہ سب سے بڑا شعبہ ہے اور ملکی پیداوار کا چوتھا حصہ اس سے ہی حاصل ہوتا ہے لیکن اس شعبے میں مزید بہتری لا کرہم اپنی برآمدات کو بڑھا سکتے ہیں۔ہر سال کئی ہزار ایکڑ کی فصلیں بارش،سیلاب یا کیڑے وغیرہ لگنے سے تباہ ہو جاتی ہیں۔ حکومت کو ان فصلوں کو محفوظ کر نے کے لئے اقدامات کرنا چاہئے ۔اور کسانوں کے لئے کیڑے مار ادویات ،سپرے اور کیمیائی کھادیں وغیرہ کو سستا کیا جائے تا کہ کسان ان کا استعمال کرکے فصلوں کی نشودونما کو مزید بہتر، اور اضافی غذائی پیداوار کے حصول کو یقینی بناسکیں۔
یہاںضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتیں، اقوام متحدہ جیسے ادارے اور ترقیاتی ایجنسیاں مل کر خوراک کوضائع کرنے والے لوگوں کی ذہنیت کو بدلنے کی کوشش کریں ، خوراک تیار کرنے والے اداروں، سپر مارکیٹوں اور صارفین میں خوراک کو ضائع کرنے والے رویوں کی حوصلہ شکنی کریں کیوں کہ کھاتے پیتے گھر کا ہر فرد غذائی اجناس ضائع کرکے پھینک کر غریبوں کے منہ میں ہاتھ ڈال کہ نوالہ نکالنے کا مجرم بنتا جا رہا ہے۔ یہاں اگر ہم صرف اس بات پر غور کر لیں جو حضرت عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرما تی ہیں کہ ایک دن امام انبیاءحضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو آپ نے ایک روٹی کا ٹکڑا زمین پر پڑا ہوا دیکھا ، آپﷺ نے اس کو اٹھایا، صاف کیا اورتناول فرما لیا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا کہ اچھی چیز کا احترام کیا کرو ، روٹی جب کسی سے بھا گتی ہے تو لوٹ کر نہیں آتی۔ ( اچھی چیز سے یہ بھی مرا د ہے کہ اللہ کی دی ہو ئی دوسر ی اشیاءکی بھی قدر کیا کرو ) اور جو چیز زیادہ معلوم ہو وہ کسی حق دار کو دے دیا کر و“۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کایہ ارشاد ہمیں بہت کچھ سوچنے کی دعوت دے رہا ہے۔