ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ،چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا

  • May 2, 2018, 3:30 pm
  • Breaking News
  • 870 Views

چیف جسٹس ثاقب نثار نے بلوچستان کے مختلف مقامات پر ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کا نوٹس لیتے ہوئے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور وزارت داخلہ سے ٹارگٹ کلنگ پر فوری رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔


سپریم کورٹ آف پاکستان سے جاری بیان کے مطابق چیف جسٹس نے ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ پر نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ کوئٹہ آمد پر ہزارہ برادری کے افراد سے ملاقات ہوئی تھی، ہزارہ برادری ڈر کے باعث درخواست نہیں دے رہے، میں نے انہیں 184 کی درخواست سپریم کورٹ میں جمع کرانے کا حکم دیا تھا لیکن وکیل میسر نہ ہونے پر انہوں نے درخواست نہیں دی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم نے معاملے کا سوموٹو ایکشن لے لیا ہے،جن پر ہزارہ کمیونٹی کی ٹارگٹ کلنگ کاالزام ہے وہ کھلے عام جلسے کر رہے ہیں،حکومت بلوچستان ایکشن کیوں نہیں لیتی، امن و امان کی ذمہ کس کی ذمہ داری ہے؟۔



جاری بیان میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہزارہ والوں کو یونیورسٹی میں داخلے نہیں ملتے،یونیورسٹی میں داخلے تو لے لیتے ہیں لیکن ان کا جانا بہت مشکل ہے، یہ لوگ اسکول اور اسپتال نہیں جاسکتے، کیا ہزارہ والے پاکستان کے شہری نہیں؟۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اب تک جتنی بھی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے اس کی تفصیلات پیش کی جائے۔ عدالت کی جانب سے ہزارہ کمیونٹی کی ٹارگٹ کلنگ پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت 11 مئی کو مقرر کی


اس سے قبل منگل کے روز آرمی چیف جنرل قمر باجوہ ہزارہ برداری کے مطالبے پر کوئٹہ پہنچے، جہاں برادری کے افراد نے آرمی چیف اور دیگر عسکری قیادت سے ملاقات کی۔ آرمی چیف اور عمائدین کی ملاقات میں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال، وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو، کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ اور دیگر اعلیٰ حکام بھی شریک تھے۔ آرمی چیف اور عمائدین کی ملاقات میں آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ہزارہ برادری کو نشانہ بنانے والوں کو نشان عبرت بنا دیں گے۔



واضح رہے کہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف ہزارہ برادری کے افراد کئی روز سے کوئٹہ میں بلوچستان اسمبلی کے سامنے دھرنا دیئے ہوئے تھے۔ ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف بیشتر حصوں میں کاروباری سرگرمیاں بھی مکمل طور پر بند رہی۔ ہزارہ برادری کی جانب سے آرمی چیف کے آنے اور ملاقات تک کسی بھی قسم کی بات چیت اور مذاکرات سے انکار کیا گیا۔


پیر کے روز وزیراعلیٰ بلوچستان اور صوبائی وزیر داخلہ کی یقین دہانی کے باوجود ٹارگٹ کلنگ کے خلاف ہزارہ برادری نے احتجاجی دھرنا جاری رکھا، جب کہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کی جانب سے ملاقات پر بھی مظاہرین نے دھرنا ختم نہیں کیا تھا۔



وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے بھی بلوچستان اسمبلی کے باہر مجلس وحدت المسلمین کے کیمپ کا دورہ کیا تھا اور ہڑتالیوں کے رہنما اور صوبائی وزیر سید آغا رضا سے ملاقات میں ملزمان کی گرفتاری کے لیے اقدامات کی یقین دہانی بھی کرائی تھی، تاہم سید آغا رضا سمیت دیگر مظاہرین نے سیاسی رہنماؤں پر واضح کیا تھا کہ جب تک آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ خود کیمپ کا دورہ کرکے یقین دہانی نہیں کرائیں گے، احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔


ہزارہ قبیلے کے لوگ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، وہ کوئٹہ شہر کے مشرق میں مری آباد، جب کہ مغرب میں بروری روڈ سے متصل ہزارہ ٹاؤن میں ہزار ہ برادری کے لوگ لاکھوں کی تعداد میں رہائش پذیر ہیں۔ دیگر مقامات کے علاوہ انہیں دیگر علاقوں کے درمیان آمدورفت کے دوران نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس برادری کے لوگ روزانہ شہر کے مختلف علاقوں میں ضروری خوراک کی اشیاءاور روزگار کے لئے جاتے ہیں۔ اس دوران اکثر و بیشتر اُنھیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔


انسانی حقوق کی تنظیم نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ماہ انسانی حقوق کی تنظیم نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے ہزارہ قبیلے کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی تھی۔ جس میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ اپنی رپورٹ میں کمیشن فار ہیومن رائٹس نے بتایا تھا کہ گزشتہ 16 سالوں کے دوران ہزارہ قبیلے کے افراد پر ہونے والے حملوں میں 525 افراد ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ ہزارہ برادری کے لوگوں پر اس سے پہلے بھی متعدد خودکش حملے ہوتے رہے ہیں، جس میں سیکڑوں کی تعداد میں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہزارہ برادری کے افراد کا کہنا تھا کہ قومی میڈیا کے مقابلے میں بین الاقوامی میڈیا ان کی زیادہ حمایت کرتا ہے۔

بلوچستان رپورٹ
اس سے قبل بلوچستان کے محکمہ داخلہ کے ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا گیا تھا کہ کوئٹہ میں جنوری 2012 سے دسمبر 2017 کے دوران دہشت گردی کے متعدد واقعات میں ہزارہ برادری کے 509 افراد ہلاک اور 627 زخمی ہوئے۔

ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی
تاہم ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) کے کوئٹہ ڈسٹرکٹ کے صدر بوستان علی کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد رپورٹ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس عرصے میں ہزارہ